تلہ گنگ (ٹی ٹائمز نیوز) یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے پس منظر اور اس کے طول پکڑنے کے نتیجے میں اس کے غیر متوقع نتائج کے پیش نظر ہتھیاروں کی فوری خریداری ضروری ہو گئی ہے۔کچھ ممالک ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے شمالی کوریا، ایران، پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کا سہارا لینے پرمجبور ہیں۔
ہتھیاروں کی مارکیٹ کے مبصرین نے تصدیق کی ہے کہ ہتھیاروں کی عالمی منڈی میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جس کی نمائندگی نئے فروخت کنندگان کرتے ہیں جو غیر متوقع طور پر مارکیٹ میں داخل ہوئے ہیں۔
فارسی زبان میں ریڈیو فرانس کی ویب سائٹ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا، ایران، ترکی اور پاکستان نے اس انتہائی منافع بخش میدان میں ایک چھوٹا سا مقام بنا لیا ہے۔
معلومات میں کہا گیا کہ کیوبا کے حوالے سے غریب ممالک میں اسلحے کی تیاری کوئی نئی بات نہیں ہے جو پہلے ہی سابق سوویت یونین کی مدد سے اس مرحلے تک پہنچ چکا تھا۔
ترکی نے بھی تقریباً 40 سال پہلے اس میدان میں قدم اٹھایا، جس کا مقصد ہتھیاروں کی درآمد کے لیے اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا تھا، نہ کہ انھیں برآمد کرنا۔
اس حوالے سے گذشتہ ہفتے ایک امریکی رپورٹ میں ایسی دستاویزات سامنے آئی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ روس شمالی کوریا سے لاکھوں میزائل اور مارٹر خریدتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ امریکی جانتے ہیں کہ پیانگ یانگ روسی فوج کے زیر استعمال گولہ بارود تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ہتھیار بظاہر یوکرینی محاذوں پر بھیجے جانے کے لیے خریدے گئے تھے۔
