تحریر : خاور نیازی اس ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں اِس وقت ایک فوجی کو دس سے پندرہ کلو سامان اٹھا کر چلنا پڑتا ہے ،یہ وزن محض دس سے پندرہ گرام رہ جائے گا انسانی زندگی ایک ایسے انقلاب سے دو چار ہونے والی ہے جس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتادنیا بھر میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں نے نینو ٹیکنالوجی کے ذریعہ مختلف مصنوعات بنانا شروع کر دی ہیںجس تیزی سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب آتا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اب سائنس دان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دس سے بیس سالوں میں ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر چکی ہوگی کہ ہر گھر میں تبدیلیاں واضح طور پر نظر آنے لگیں گی۔اس کی وضاحت سائنس دان یوں بیان کرتے ہیں کہ ٹی وی کاغذ سے بھی پتلے ہوں گے اور فرش اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خود بخود صاف ہو جایا کریں گے۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت اشیاء انتہائی مضبوط اور دیرپا مگر وزن میں انتہائی کم ہوا کریں گی۔ پاور فل کمپیوٹرز قیمت میں کم اور سائز میں انتہائی سمارٹ اور چھوٹے ہوا کریں گے۔ گھر میں موجود اشیاء ہمارے موڈ اور ضرورت کے مطابق بہت تھوڑے وقت میں تبدیل ہو جایا کریں گی۔بادی النظر میں یہ دعوے اگرچہ خواب لگتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اگر ماضی میں جھانکیں تو شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔جس تیزی سے دنیا بدلی ہے اور چند سالوں میں اس ٹیکنالوجی نے جو حیرت انگیز نتائج دئیے ہیں انکی روشنی میں یہ اندازہ کر لینے میں کوئی شک نہیں ہوناچاہئے کہ آنے والا وقت اسی ٹیکنالوجی کا ہو گا بالکل ایسے جیسے پچھلی صدی کو ” انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ” کہا جاتا تھا۔ذرا غور کریں جب لگ بھگ نصف صدی قبل کمپیوٹر پاکستان میں متعارف ہوا تو یہ بھاری بھر کم بڑی بڑی الماریوں کے سائز کے ہوا کرتے تھے۔ آج چار پانچ انچ کی سکرین کے ساتھ موبائل فون کی شکل میں کمپیوٹر ہر وقت ہر کسی کی جیب میں میرے ساتھ رہتا ہے۔ یہی حال ٹی وی کا تھا جو لگ بھگ اڑھائی فٹ لمبائی اور کم و بیش اتنی ہی موٹائی کے ساتھ ایک مخصوص ٹیبل پر رکھا جاتا تھا جبکہ آجکل بمشکل ایک انچ موٹائی کے ساتھ ٹیبل کی بجائے دیوار سے چپکا نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس جدید ٹیکنالوجی کی تفصیل میں جائیں اس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا آغاز زمانہ ء قدیم میں کب اور کیسے ہوا تھا۔ٹیکنالوجی کا آغاز:۔ زمانہء قدیم میں غاروں سے نکل کر جب انسان نے رفتہ رفتہ مل جل کر رہنا شروع کیا تو ایک معاشرہ تشکیل پایا۔ معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انسانی ضرورتیں بڑھتی چلی گئیں اور انسان نے اپنی ضروریات کے مطابق ایجادات کو رواج دیا اور شاید ایسے ہی کسی موقع پر محاورہ ’’ ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ کا ظہور ہوا ہو گا۔ تاریخ کے مطالعے سے جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق غاروں سے نکل کر انسان کا نزدیک ترین جو پہلا سامنا ہوا وہ درختوں سے ہوا۔آگے چل کر انہی درختوں نے انسان کو جسم ڈھانپنے سر چھپانے اور کھانے پینے کی اشیاء مہیا کیں۔چنانچہ ان درختوں کو کاٹنے اور اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لئے اسے پہلے پتھروں اور پھر دھاتوں کا استعمال کرنا پڑا۔ دھاتوں سے انسان نے جو کلہاڑی نما اوزار ایجاد کیا دراصل اس روئے زمین پر انسان کی یہ پہلی ایجاد تھی۔ جسے ہم اپنے زمانے کی پہلی ٹیکنالوجی کا نام دے سکتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ایجادات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہاں تک کہ کل تک ناممکن نظر آنے والا کام اگلے روز حقیقت کا روپ دھار چکا ہوتا ہے۔گزشتہ صدی میں جب انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز ترقی کر لی تو ماہرین نے بڑے فخر سے اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ انسان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں وہاں تک رسائی حاصل کر لی ہے جہاں تک پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اب سائنس دان اس ٹیکنالوجی کو ” قصہ ء پارینہ ” تصور کرتے ہوئے بڑے فخر سے آنے والے دور کو ” نینو ٹیکنالوجی ” کا دور کہہ رہے ہیں۔ اور بڑے فخر سے برملا کہتے ہیں جیسے بیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی تھی اسی طرح اکیسویں صدی نینو ٹیکنالوجی کی صدی ہو گی۔ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے شاید نینو ٹیکنالوجی کا نام بھی نہ سنا ہو گا اور اگر نام سن بھی رکھا ہو تو شاید اس ٹیکنالوجی بارے زیادہ معلومات بھی ان کے پاس نہ ہوں ۔نینو ٹیکنالوجی ہے کیا؟ :۔نینو کے لفظی معنی باریک ترین اور مختصر ترین اشیاء کے ہیں ۔ نینو اشیاء کے سائز کا اندازہ یہاں سے لگا یا جا سکتا ہے کہ نینو اشیاء ایک سوئی کی نوک سے دس لاکھ گنا چھوٹی ہوتی ہیں۔سائنسی طور پر نینو سکیل میں پیمائش کی اکائی کو’’نینو میٹر ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسکی ساخت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نینو میٹر ایک روائتی میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے۔اگر نینو میٹر کے سائز کا موازنہ عملی طور پر کرنا مقصود ہو تو ذہن میں رہے کہ انسانی جسم کے بال کا قطر 80000نینو میٹر ہوتا ہے۔ ایک اخبار کی شیٹ ایک لاکھ نینو میٹر موٹی جبکہ ایک انسانی ناخن ایک دن میں لگ بھگ 86000نینو میٹر بڑھتا ہے۔نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ایسی ایجادات کا احاطہ ہے جسے فعال رہنے کے لئے ہمہ وقت ہر ایٹم کی موجودگی کا مقررہ مقام پر موجود ہونا لازم ہو، اس تکنیک کو نینو ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ نینو سکیل پر ایٹموں اور مالیکیولز کے جوڑ توڑ کوایک خاص ڈیوائس کی ضرورت پڑتی ہے جسے ’’سکیننگ ٹنلنگ مائیکرو سکوپ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل ان مائیکرو سکوپس کے ذریعہ ہی سائنسدان یہ جان سکتے ہیں کہ نینو سکیل سطح پر مواد کو آپس میں کیسے جوڑنا ہے۔سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بیسویں صدی میں انقلاب بپا کر کے انسان کا رہن سہن ہی بدل ڈالا تھا بالکل ایسے ہی اکیسویں صدی نینو ٹیکنالوجی کی صدی ہو گی۔ جس کی بدولت انسانی زندگی میں ایک ناقابل یقین انقلاب رونما ہونے جا رہا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس کا ابھی تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔نینو ٹیکنالوجی کا اطلاق:۔نینو ٹیکنالوجی کا اطلاق میڈیسن، فزکس،مکینکس ، کیمسٹری ، بائیالوجی، انجینئرنگ ، الیکٹرانکس، توانائی، ماحولیات ، نقل و حمل اور مینوفیکچرنگ سمیت روزمرہ زندگی کے ان گنت شعبہ ہائے زندگی پر پڑے گا۔ غرضیکہ اس ٹیکنالوجی کا اطلاق قومی سلامتی کے شعبوں سے لیکر معاشی میدان تک فعال اور ترقی کرتا نظر آتا ہے۔ سیکیورٹی کے میدان میں مائیکرو سینسرز کی مدد سے اس ٹیکنالوجی کا اطلاق نہایت موثر انداز میں کیا جا رہا ہے۔ اگر اس ٹیکنالوجی کا آسان الفاظ میں احاطہ کرنامقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی چیزوں کو سمجھنے دیکھنے اور محسوس کرنے میں ہماری روزمرہ زندگی کے انداز اور طور طریقوں کو یکسر بدل دے گی۔یہ ٹیکنالوجی اس قدر سمارٹ اور باریک ہے جسے انسانی آنکھ براہ راست دیکھنے سے قاصر ہے۔ بلکہ اس کے اجزاء کا مشاہدہ کرنے کے لئے مختلف آلات جن میں انتہائی حساس مائیکرو سکوپ شامل ہے سے مدد لینا پڑتی ہے۔ مائیکروسکوپ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نینو پارٹیکلز کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ نینو پارٹیکلز کو استعمال میں لانے کے لئے مائیکروسکوپ کے بغیر دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ خوش آئندبات یہ ہے کہ نینو ٹیکنالوجی ہماری روزمرہ زندگی میں اب استعمال ہونا شروع چکی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا گہرا اثر لوگوں کی روزمرہ زندگی ، صحت ، دولت اور رویوں پر پڑے گا جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے ؟ :۔ماہرین اور سائنسدان نینو ٹیکنالوجی کے مستقبل سے پر امید بھی ہیں اور پرعزم بھی۔ماہرین کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت تین چار دن چلنے والی روائتی بیٹریاں قصہء پارینہ بن جائیں گی اور کئی کئی سال تک استعمال کی جانے والی بیٹریوں پر ہی لوگوں کا انحصار ہو گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زیادہ لمبے عرصہ کی بات نہیں ہے بلکہ کچھ ہی سالوں میں ’’مالیکیوکر الیکٹرونکس‘‘ کے ذریعہ بہت ہی چھوٹے کمپیوٹر سرکٹس اور سینسرز بننا شروع ہو جائیں گے جن کے ذریعے انتہائی چھوٹے مگر کئی گنا زیادہ کارکردگی والے یونٹ متعارف ہو جائیں گے جو موجودہ قیمت سے کہیں کم بھی ہونگے۔دنیا بھر میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں نے نینو ٹیکنالوجی کے ذریعہ مختلف مصنوعات بنانا شروع کر دی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے دنیا کی معروف کمپنی ’’ انٹل‘‘ نے اپنے جدید ترین مائیکرو پروسسر متعارف کرا ڈالے ہیں جنہیں ” آئیوی برج ” کا نام دیا گیا ہے۔ ان مائیکرو چپس میں پہلی مرتبہ بائیس نینو میٹر مینو فیکچرنگ پراسیس استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت موجودہ بتیس نینو میٹر پراسیس کے مقابلے میں زیادہ ٹرانسسٹر لگائے جا سکتے ہیں۔ انٹل کمپنی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان پراسیسرز میں ٹرائی گیٹ تھری ٹرانسسٹرز لگائے جائیں گے جنہیں کم طاقت درکار ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انٹل کی حریف کاروباری کمپنیاں جن میں آئی بی ایم اور اے ڈی ایم شامل ہیں، نے بھی نینو ٹیکنالوجی کا استعمال باقاعدہ طور پر شروع کر دیا ہے۔گھر کی تمام اشیاء رفتہ رفتہ ’’ مالیکیوکر مینوفیکچرنگ سسٹم ‘‘ کے تحت بنناشروع ہو جائیں گی جس کے ذریعہ کاروں اور گاڑیوں میں انسانی حفاظت کے متعدد اقدامات کئے جا سکیں گے۔ چنانچہ حفاظتی طور پر ہوا میں معلق ایک چھوٹی سی مشین ہو گی جو دوران حادثہ آپ کے ارد گرد پھیل کر آپ کو اپنی حفاظت میں لے لے گی اور آپ چوٹ لگنے سے محفوظ رہیں گے۔ بلکہ دوران حادثہ کار اپنے آپ کو فوری سنبھال بھی لے گی۔ اس کی ایک منفرد بات یہ بھی ہو گی کہ نینو ٹیکنالوجی سے چلتی گاڑیوں کو باہر سے تیل یا گیس کی ضرورت ہی نہ ہو گی بلکہ یہ گاڑیاں اپنا ایندھن خود تیار کر لیا کریں گی۔امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے نینو ٹیکنالوجی کی افادیت پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی بدولت امریکی فوجیوں کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان منتقل کرنا اتنا آسان ہو گا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں اس وقت ایک فوجی کو دس سے پندرہ کلو سامان اٹھا کر چلنا پڑتا ہے وہیں یہ وزن کچھ سال بعد محض دس سے پندرہ گرام رہ جائے گا۔زراعت کے شعبہ میں بھی نینو مشینوں کا کردار اہم ہو گا۔ یہ مشینیں ہماری زراعت کے لئے انتہائی کار آمد ہونگی کیونکہ یہ مشینیں فصلوں اور انسان دوست پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو کھا جائیں گی۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے فضا کو صاف کیا جا سکے گا۔ بنجر اور ناکارہ زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا سکے گا۔نینو ٹیکنالوجی میں چیزیں بنانے کاسب سے اہم ایٹم کاربن ہے۔ چونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی کاربن سے بنتا ہے جس کا نتیجہ ’’ گرین ہاؤس افیکٹ‘‘ ہے۔ چنانچہ نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے آب و ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو مفید ہوا میں بدلا جا سکے گا۔ مالیکیولر مینوفیکچرنگ چیزوں کو بنانے کے دوران ایٹموں کو ترتیب دیتی ہے۔ چنانچہ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بہت جلد وہ ” مائیکرو اسکاپک مشین ’’تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو انسانی جسم کے سیل کے برابر ہو گی اور انسانی بدن کے اندر سفر کر کے ہماری بیماریوں کا سراغ لگا سکے گی جس کے ذریعے وائرس ، بیکٹیریا اور کینسر سیل وغیرہ کو باہر نکالا جا سکے گا۔اور ضرورت پڑنے پر مالیکیوکر سرجری کے ذریعہ ان کو درست بھی کیا جا سکے گا۔ نینو ٹیکنالوجسٹس کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ’’ لائبریری آف کانگرس ‘‘کی ساری کتابیں انسانی بدن کے ایک سیل کے برابر کمپیوٹر میں رکھی جا سکیں گی۔ یہ کمپیوٹر انسانی دماغ کے مانند ہو گا۔توقعات اور تحفظات :۔نینو ٹیکنالوجی بارے جہاں سائنسدانو ں کے دعوے ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں وہیں دوسری طرف اب اس ٹیکنالوجی بارے ہر طرف سوالات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے ،ساتھ ہی تحفظات کا سلسلہ بھی طول پکڑتا جا رہا ہے۔ رائل سوسائٹی اینڈ رائل اکیڈمی آف انجینئرنگ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ٹیکنا لوجی انسانیت کی فلاح اور بھلائی کے لئے انتہائی موثر ہو سکتی ہے تاہم ساتھ ساتھ اس بات سے خبر دار بھی کیا گیا ہے کہ اس کے مضر اثرات سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی , بالخصوص چھوٹے چھوٹے گرد کے وہ ذرات جنہیں نینو ٹیوب پارٹیکلز کہتے ہیں سانس کے ذریعہ جسم کے اندر داخل ہو کر نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ابھی کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلس نے نینو ٹیکنالوجی بارے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا نینو پارٹیکلز اور نینو ٹیوبز کو برطانوی اور یورپی قوانین کے تحت نئی کیمیائی اشیاء کا درجہ دیا جانا چاہئے۔اسی رپورٹ میں شہزادہ چارلس نے یہ بھی کہا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی انتہائی چھوٹی اور باریک اشیاء کو روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء میں شامل ہونے سے پہلے ایک سائنسی حفاظتی کمیٹی سے تصدیق کا پابند بنایا جائے۔ دوسری طرف اس ٹیکنالوجی کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ یہ طبی اور صنعتی تحقیق کے لئے نہایت کار آمد ثابت ہو گی۔ اس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اس کے حامی مزید کہتے ہیں کہ نہایت ہی چھوٹے پیمانے پر اشیاء کے غیر معمولی کردار کو بہتر اور کار آمد مشینیں بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتاہے۔چونکہ اس ٹیکنالوجی بارے جتنے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں اتنے ہی خدشات بھی زیر گردش ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ایسا رد عمل انسانی فطرت ہے کیونکہ ابھی تک لوگوں نے عملی طور پر اس ٹیکنالوجی کو پرکھا ہی نہیں۔ اس لئے اس بارے غلط فہمیوں کا پیدا ہونا ایک قدرتی فعل ہے۔ اسی کے ساتھ ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے باعث وائرس سے بھی چھوٹی مشینیں دنیا پر قبضہ کر کے اس کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں جبکہ ماہرین اس قیاس کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی باتیں غلط اور خیالی ہیں۔ تاہم ماہرین کامتفقہ موقف یہ ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کے استعمال سے پہلے نئے قوانین کا اجراء وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہاں ایک طرف ان قوانین کے اجراء سے اس ٹیکنالوجی کو صرف مثبت استعمال میں ہی بروئے کار لایا جا سکے گا وہیں اس کے استعمال کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here