اللہ نے جب انسان کو دنیا میں بھیجا تو ایک مقصد دے کر بھیجا۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔اللہ نے ہر مخلوق کو بامقصد بنایا اور حکم دیا جیسے سورج اور چاند کو چمکنے کا،اپنے مدار میں گھومنے کا،آگ کو جلانے کا نیز ہر مخلوق کو اس کے مقصد سے آگاہ کر دیا چاہے وہ جاندار ہے یا بےجان۔ہر مخلوق اللہ کے حکم پر عمل کرتی ہے سوائے انسان کے۔انسان کو اللہ نے چوائس دی۔اسے برے بھلے،صحیح غلط کا بتا دیا۔اچھے کام کرو گے تو جنت ہے،برے کام کروگے تو دوزخ ہے،سب کچھ واضح کر دیا اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ اپنے لیے کون سا راستہ چنتاہے۔یہی کمال ہے کہ گناہ کا موقع ملتے ہوۓ،اختیار ہوتے ہوۓ خود کو اللہ کے لیے روک لینا اور اسی سے انسان حقیقی معنی میں اشرف مخلوق بنتا ہے ورنہ وہ جانوروں سے بھی بد
تر ہو جاتا ہے۔مگر انسان نافرمانی کرتا ہے یہ جانتے ہوۓ بھی کہ خواہش نفسانی کی پیروی سے جو مزہ ملے گا وہ عارضی ہے مگر جو عذاب ہے وہ دائمی ہے اور بہت سخت ہے۔ان نافرمانیوں کا آغاز چھوٹی چھوٹی نافرمانیوں سے ہوتا ہے جنھیں عام سمجھ کر انسان کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔دل کی خوبصورتی ،چمک اور حق پہچاننے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے،دل سیاہ ہوجاتا ہے۔پھر اللہ کی نافرمانی سے ڈر نہیں لگتا اور اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان قبیح سے قبیح جرم کو بھی عام تصور کرتا ہے کیونکہ اس کا دل مردہ ہے۔پھر انسان ایل-جی-بی-ٹی-کیو کو انسانی حقوق کے نام سے تسلیم کرتا ہے،اسے اپنا حق سمجھتا ہے اور غیر فطری کام کرتا ہے۔اللہ نے جسے مرد بنایا تو خوبصورت بنایا،عورت بنایا تو خوبصورت بنایا،اللہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ کس کو مرد بنانا تھا اور کس کو عورت،الحمداللہ ہمارا دل اس بات کو تسلیم کرتا ہے مگر کچھ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔کیوں انھیں اس قبیح گناہ کے نتائج نظر نہیں آتے؟ کیوں انھیں قوم لوط پر بھیجے گۓ عذاب کی وجہ نظر نہیں آتی؟قوم لوط کی بستی کو اللہ نے پہلے الٹ دیا پھر وہاں پتھر برساۓ۔ایک دو پتھر نہیں،اتنے پتھر کہ ان پتھروں کی تہیں بننے لگیں۔کس وجہ سے؟ صرف اس گناہ کی وجہ سے جسے مسلمان آج تسلیم کر رہے ہیں۔کیوں مسلمان علی الاعلان اللہ کی نافرمانی کرنے لگے؟ کیونکہ ان کے دلوں پر گناہوں اور گمراہی کے پردے پڑ چکے ہیں۔اس کی وجہ دلوں کا زنگ ہے جسے اگر توبہ اور ندامت کے آنسوؤں سے دھویا نہ جاۓ تو یہ بڑھتا چلاجاتا ہے اور انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔اسی موقع پر شیطان متحرک ہوتا ہے اور انسان کو مزید سرکش بناتا ہے۔مگر جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں جو قرآن والے ہوتے ہیں وہ شیطان کے جھانسے میں نہیں آتے،ان کے دل حق کو پہچانتے ہیں۔
سورۃ التین میں اللہ نے فرمایا:”قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ۔اور طور سینین کی، اور اس امن والے شہر کی۔بےشک ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا۔”
کیا یہ بات اہمیت کے لیے کافی نہیں تھی کہ یہ اللہ کا فرمان ہے مگر اللہ نے قسمیں کھائیں پھر لام تاکید اور پھر قد یعنی تحقیق کا لفظ۔اللہ اکبر۔عربی زبان میں ان الفاظ کی اہمیت دیکھیں پھر فرمایا”ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا.”یعنی مرد کو مرد بہترین بنایا،عورت کو عورت بہترین بنایا۔اب اگر کوئ اس بات کو بعینہ تسلیم نہیں کرتا تو معاشرے میں تباہی ہو گی،سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔مثال کے طور پر وراثت کی تقسیم میں۔اگر ایک مرد خود کو عورت ڈکلیئر کرواتا ہے تو وراثت میں کیا وہ ایک حصہ لے گا؟ یا اس وقت وہ پھر مرد بن جاۓ گا؟ اسی طرح کے بے شمار مسائل سامنے آئیں گے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسان چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو بھی چھوٹا نہ سمجھے کیونکہ ہر بڑے گناہ کا آغاز چھوٹے گناہ سے ہوتا ہے،ہر چھوٹی برائ بڑی برائی کا راستہ کھولتی ہے۔انسان میں اتنا شعور ہونا چاہیے کہ وہ ذہن میں آنے والے خیال کو پہچان سکے۔آیا کہ وہ خیال شیطان کی طرف سے ہے یا نہیں،اگر وہ خیال اللہ کی نافرمانی کا ہے تو یقیناً شیطان کی طرف سے ہے ۔بجاۓ اس کے کہ اس خیال کو سوچ بنا کر عمل کیا جاۓ،اس خیال کو جھڑکا جاۓ اور اس کے خلاف جایا جاۓ۔کرنے کا کام یہ ہے کہ اس گناہ کے خلاف آواز اٹھائیں،ہر کوئ اپنی استطاعت کے مطابق اس کو روکنے کی کوشش کرے۔جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روک سکیں تو ہاتھ سے روکیں،یہ ممکن نہیں توزبان سے روکیں،اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو دل میں اسے برا جانیں اگرچے دل میں برا جاننا ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے۔ اس بل کے خلاف جائیں تاکہ جب روز قیامت یہ سوال کیا جاۓ کہ جب اللہ کی نافرمانی ہو رہی تھی تب تم کہاں تھے تو ہم جواب دینے کے قابل ہوں کہ ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائ تھی۔جو لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ اسے دوسرے لوگوں تک پہنچائیں ۔
جزاک اللّٰہ خیراً
