سیلاب کی موجودہ صورتحال اور تباہ کاریوں کے باعث میرا ملک ایک بار پھر اجڑ گیا۔ مملکت خداداد کا تقریباً تین چوتھائی حصہ زیرِ آب آ چکا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف معاشی بلکہ غذائی بحران کا بھی خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ مہنگائی کی ستائی غربت و تنگدستی کے عالم میں بمشکل بچوں کا پیٹ پالنے والی قوم کو ایک اور کڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ ہر کچھ عرصہ کے بعد معاشی بحران کبھی قدرتی آفات کی صورت میں تو کبھی ہمارے منتخب کردہ نمائندگان کی ناقص حکمت عملی اور نااہلی کے سبب ہمیں آن گھیرتا ہے اور ہمیں ہمیشہ جھوٹی تسلی دی جاتی ہے کہ تھوڑے سے مشکل وقت کے بعد آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ ہر مشکل وقت کے بعد ایک مشکل ترین وقت ہمیں خوش آمدید کہنے کیلئے ہمارے انتظار میں کھڑا نظر آتا ہے۔
محسن نقوی نے کیا خوب کہا
“محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں،
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے”۔
راقم کو آج یہ تحریر کرتے ہوئے بالکل بھی کسی ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا کہ ہم پاکستانی ایک مظلوم قوم ہیں جس کے نصیب میں ہمیشہ قربانی کا بکرا بننا ہی آیا۔ مملکت خداداد کی 70 سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہم قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ایسی آفات کو بنیاد بنا کر ہمیشہ کشکول اٹھا کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نااہل منصوبہ سازوں نے آج تک ان قدرتی آفات کے تدارک اور روک تھام کیلئے کبھی سوچا تک نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کروڑوں لوگوں کو بے گھر کرنے اور خاندانوں کو اجاڑنے والا حالیہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے اس میں ایک بڑا قصور ہمارے ان نااہل صاحبانِ اختیار کا جو ہر بار چہرے بدل کر عوامی ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں اور ہمارے ضمیر سے کھلواڑ کرتے ہوئے ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر سال یا دوسرے سال سیلاب کی ایک زوردار لہر کئی گھروں کو اجاڑ دیتی ہے لیکن اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے سوچنے کی بجائے اس مسئلے کو محض امداد کے حصول کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ آج اگر ہمارے ملک میں سیلاب کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے فالتو پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست کیا جاتا تو شاید یہ نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور ایسی صورتحال پر کسی طور قابو پالیا جاتا۔ بدقسمتی سے جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہم دیگر ممالک کے سامنے کشکول اٹھائے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس مد میں ملنے والی امداد بھی اصل حقداروں تک پہنچنے سے پہلے ہی ہڑپ ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کا تقریباً پونا حصہ زیرِ آب آنے کی وجہ سے بنیادی ضروریات تک سے محروم ہو چکا ہے مگر صاحبانِ اختیار ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے آج بھی اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمارا ملک مشکل ترین معاشی حالات بے کار حکمت عملی اور منصوبہ بندی اور نااہل ترین صاحبان اقتدار کے باوجود کیسے چل رہا ہے تو آج مجھے اس کا جواب بھی مل گیا۔ ملک کے چپے چپے میں سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے لگائے جانے والے کیمپوں میں درد دل رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد کی جانب سے اپنی استطاعت سے بڑھ کر جمع کروائے جانے والے عطیات اور مصائب و تکالیف میں گھرے اپنے ہم وطنوں کی جانی و مالی امداد کا جذبہ ہی تھا کہ ستر سال سے نااہل ترین منصوبہ سازوں کی ناقص حکمت عملی کے باوجود ہمارا ملک آج بھی قائم و دائم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ یقیناً یہی جذبہ اور یہی لوگ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہیں جو کہ بلاشبہ داد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
