” جن عورتوں کے ہاں آپریشن سے بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ جلدی صحت یاب ہو جاتی ہیں نسبتاً ان خواتین کے جن کے ہاں آپریشن سے بیٹا پیدا ہوا ہو … “میرے پیارو! بقلم کاتب یہ الفاظ ایک سینئر میل نرس کے تھے جو کافی عرصہ سے Obs & Gyne ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا تھا، اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ سن کر میں لرز سا گیا اور اسکی طرف دیکھنے لگا، اس نے کہا سر میں صحیح کہہ رہا ہوں، کئی سالوں سے اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہوں اور میں نے ان تمام سالوں کے مشاہدے کی روشنی میں یہ بات کی ہے … “اس نے کہا کہ :” جس عورت کے ہاں آپریشن سے بیٹی پیدا ہوئی ہو کم ہی دیکھا ہے کہ کوئی اس ناز نخرے اٹھائے اور شاید گھر والوں کے تاثرات دیکھ کر احساس ندامت اس کو آ لیتا ہے اور اسکی اپنی بھی کوشش ہوتی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے بستر چھوڑ کر دوبارہ سے گھر کے کام کاج میں جت جائے،جبکہ بیٹا پیدا کرنے والی ماں کے اکثر ناز نخرے بھی اٹھائے جاتے ہیں اور کچھ وہ خود بھی اپنے آپ میں اترا رہی ہوتی ہے کہ وہ بیٹے کی ماں بنی، ایسی عورتیں اکثر کچھ ذیادہ دن لیتی ہیں بستر چھوڑ کر واپس گھر کے کام کاج شروع کرنے میں … ” وہ اپنے تجربات کی روشنی میں مجھے یہ فلسفہ سمجھاتا رہا اور اس دوران ہم وارڈ کے مریضوں کا معائنہ بھی کرتے رہے، اس وارڈ میں سبھی وہ مریضائیں تھیں جن کے آپریشن سے بچے پیدا ہوئے، ایک مریضہ کا معائنہ کر کے جب میں کچھ آگے بڑھا تو وہی سینئر میل نرس کہنے لگا کہ :#سر_یہ_جسے_آپ_نے_ابھی_چیک_کیا_ہے_یہ_بہت_اچھے_لوگ_ہیں …میں نے پوچھا : ” #ایسی_کیا_خاص_بات_ہے_ان_میں …؟ “تو بولا :#سر_آپ_یقین_کیجیے_انہوں_نے_بیٹی_کی_پیدائش_پر_بھی_مٹھائی_بانٹی_ہے …میرے پیارو بقلم کاتب، مجھے پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے اس علاقے کے ہسپتال میں کام شروع کئے ذیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اور مجھے ابھی اس وارڈ میں کام کرتے ابھی ذیادہ دن نہ گزرے تھے، میرے لئے اکیسویں صدی میں بھی یہ سب باتیں سننا انتہائی حیران کن تھا، میرے نزدیک Gender Discriminationn نامی بیماری پہ کافی حد تک قابو پا لیا گیا تھا، لیکن یہ سب سن کر مجھے اپنی غلط فہمی کا احساس ہوا، اور یہ احساس تو آج یقین میں بدل گیا کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک اس خطرناک Gender Discrimination نامی بیماری کا بری طرح شکار ہے، جب آج مجھے دوران ڈیوٹی اچانک ایک Attendent بلانے آیا کہ :#ہمارے_مریض_کی_طبیعت_تشویشناک_ہے_آکر_دیکھیے میں انکے مریض تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ انکے ہاں دو دن پہلے آپریشن کے ذریعے بیٹی پیدا ہوئی ہے، اور یہ انکے ہاں تیسری بیٹی پیدا ہوئی ہے، آج اس نوزائیدہ بچی کی حالت کافی خراب ہے وہ بہت اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی ہے، میں نے بچی کی حالت دیکھی تو پوچھا : ” #کب_سے_اسکی_ایسی_طبیعت_ہے …؟ “تو ایک ادھیڑ عمر خاتون جو غالباً اس بچی کی دادی تھیں اور اسے گود میں اٹھائے ہوئے تھیں، بولیں : ” #شام_سے_ہی_ایسی_ہے ” میں نے کہا کہ :” آپ کو اب رات کے اس پہر یہ بات بتانے کا خیال آیا پہلے کیوں نہیں بتایا، خیر حالت بہت خراب ہے اس بچی کو فوری Peads ڈیپارٹمنٹ لے کر جائیں یہاں اسکی سہولت موجود نہیں آپ کو سڑک پار سامنے والے ہسپتال جانا پڑے گا، وہاں یہ سہولت موجود ہے، جلدی کیجئیے! “یہ سننا تھا کہ اماں جی نے آہستہ آہستہ ایک سویٹر اتارا دوسرا پہنا، پھر وہ اتار کر پہلا دوبارہ پہنا، چادر اوڑھی، اور آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکلیں، باہر ان کا بیٹا یعنی اس بچی کا باپ کھڑا موبائل فون میں مصروف اماں جی کا انتظار کر رہا تھا، کچھ دیر اماں جی کوریڈور میں کھڑی ہوئیں اور واپس کمرے کو چل پڑیں جیسے کچھ بھول گئیں ہوں، وہ چیز لی اور آہستہ آہستہ چلتے میرے پاس آئیں اور پوچھنے لگیں کہ :#انکی_بہو_کتنے_دنوں_میں_ہسپتال_سے_ڈسچارج_ہو_گی میں نے چڑ کر کہا کہ :” پہلے اس چھوٹی بچی کو تو جا کر چیک کروائیں اسکی حالت دیکھیں، آپ تو جیسے جان بوجھ کر دیر کر رہی ہیں … “وہ بولیں : ” #جی_جی_ادھر_ہی_جا_رہی_ہوں “اور آہستہ آہستہ کبھی رکتے کبھی چلتے اور پھر فون پر کسی سے باتیں کرتے کوریڈور سے نکل گئیں، ہسپتال سٹاف سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا : ” #عجیب_خاتون_ہیں_اتنی_دیر_کر_رہی_ہیں “تو ایک نرس بولی کہ :” سر کچھ ہفتے پہلے انکے دوسرے بیٹے کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا اسکی طبیعت ایک دن خراب ہوئی تو انہوں نے پورا ہسپتال سر پہ اٹھا لیا تھا … “ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ کچھ دیر بعد واپس لوٹیں تو کہنے لگی :” ڈاکٹر صاحب میں ابھی ہسپتال کے دروازے تک پہنچی تو دیکھا بچی بالکل سانس نہیں لے رہی تو سوچا واپس چل کر آپ کو دیکھاتی ہوں کہ زندہ بھی ہے یا مر گئی …؟ “میں نے نوزائیدہ بچی کو دوبارہ چیک کیا، اور کہا کہ ” #یہ_بچی_اب_مر_چکی “انہوں نے بچی کو کمبل میں لپیٹا اور یہ کہتی چل دیں کہ : ” #جو_اللہ_کی_مشیت ” #طالبِ_دُعا : #أبو_فرحان_بن_عبد_الرحمٰن

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here