ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں وردھا کے مقام پر۱۹۳۶ءمیں گاندھی جی نے اپنا ایک گھر بنایا تھا جو آگے چل کر سیوا گرام نام کے آشرم میں تبدیل ہو گیا۔ جب گاندھی جی حیات تھے تو اس آشرم سے گاو ں والوں کی سیوا کی جاتی تھی اب گاندھی جی کی سیوا بھاونا (خدمتِ خلق کا جذبہ) کی مانند یہ آ شرم بھی پرکھوں کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں ہر سال ۳ لاکھ زائرین گاندھی درشن کے لئے آتے ہیں اور ان کی نوادرات پر حیرت جتاتے ہیں۔ گاندھی آشرم میں ان کے استعمال کی اشیا فی زمانہ نمائش کا سامان بنی ہوئی ہیں قوم کے نزدیک اس کی اہمیت اور ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہے۔   سیوا گرام آشرم کے حکام اپنی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک موصوف کی عینک کے چوری ہونے کی خبر منظرِ عام پر آئی ہے اور ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ چوری کی اس واردات کو چھ ماہ تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا ایسا کیوں ہوا ؟اس کی تحقیق و تفتیش کر کے ناظرین کو حقیقت سے واقف کرانے کی ذمہ داری ’تول کے بول‘چینل نے مجھے سونپی اور اس کام کے لئے ہم سب سے پہلے معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کی خدمت میں جا پہنچے۔ 

گاندھی جی کے چشمے کی چوری کو اس قدر طویل عرصہ کیوں چھپایا گیا ؟ یہ سوال جب ہم نے سنکی لال اگروال سے پوچھا تو وہ کہنے لگا 

لگتا ہے آپ گاندھیائی فلسفہ یات کے بارے میں نہیں جانتے ورنہ یہ سوال نہیں کرتے ؟

ہم نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں جانتے لیکن گاندھی جی کے اصول و نظریات کو اس دور میں کون جانتا ہے ؟

وہ ناراض ہو کر بولے ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں یہ تو ہماری توہین ہے ۔

ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ہم نے شرمسار ہو کر معذرت طلب کی اور کہا کہ اچھا تو آپ ہی گاندھیائی فلسفہ حیات کی روشنی میں اس تاخیر کی وجہ بتلا دیں ،وہ بولے گاندھی جی کی چوکی پر تین بندر رکھے ہوتے تھے اور آج تک انہیں کسی نے چرانے کی جرات نہیں کی، وہی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ وہ ہمارے اس سوال پر چونک پڑے اور بولے آپ چوکی نہیں جانتے ؟ ارے میز سمجھ لیں ایسی میز جس کے پیچھے کرسی نہ ہو ؟

اچھا تو کیا انسان اس کے پیچھے کھڑا ہو کر کام کرتا ہے ؟ 

ارے نہیں بیٹھ کر میرا مطلب زمین پر بیٹھ کر۔ گاندھی جی زمینی آدمی تھے اس لئے زمین پر بیٹھ کر اپنے سارے کام کیا کرتے تھے۔ 

گویا گاندھی جی انہیں آج کل کے سیاستدانوں کی طرح کرسی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ؟

جی نہیں وہ تو بے غرض مہاتما تھے 

 لیکن آپ ان نے بندروں کے بارے میں بتلا رہے تھے ؟ کیا وہ اب بھی حیات ہیں ؟ ان کی عمر کیا ہو گی؟ہم نے سوال کیا

یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب کا پارہ چڑھ گیا وہ بولے آپ تو بالکل جاہل اور کند? نا تراش معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بندر کبھی بھی حیات نہیں تھے وہ تو ان کے مجسمے تھے جو نہ زندہ ہوتے ہیں اور نہ مرتے ہیں اسی لئے اب بھی موجود ہیں 

اچھا تو وہ پتھر کے بت چشمے کی چوری کا راز فاش کریں گے ؟ 

ارے بھئی وہ بندر نہیں بولیں گے اور اگر بولیں بھی تو ہم ان کی زبان کیونکر سمجھ سکتے ہیں

تو پھر آخر اس سوال کا جواب کون دے گا ؟

میں دوں گا۔ 

اور وہ بندر کیا کریں گے ؟

وہ! وہ کچھ نہ کریں گے میں ان کی مدد سے جواب دوں گا ؟

اچھا تو آپ ان سے پوچھ کر جواب دیں گے ؟ لیکن ابھی تو آپ نے کہا کہ ان کی زبان آپ نہیں سمجھتے 

ارے بھئی مدد کا مطلب پوچھنا نہیں ہوتا یہ کہہ کر انہوں نے اپنے میز کی دراز سے تین بندروں کے مجسمے کو نکالا اسپر کافی گردو غبار چڑھا ہوا تھا اسے صاف کیا اور پوچھا اچھا بتلاؤ کہ یہ کیا ہے ؟

یہ ! یہ تو وہی تین بندر ہیں جن کا ابھی آپ ذکر کر رہے تھے 

اچھا یہ کیا کر رہے ہیں ؟

یہ سوال مشکل تھا ہم نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اصلی بندر ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔ یہ بے جان بندر کیا کر سکتے ہیں بھلا ؟

اصل میں تم صرف آنکھوں سے دیکھنے کا کام لیتے ہو دماغ سے سوچنے کا کام نہیں لیتے اسی لئے یہ جواب دے رہے ہو۔ 

مجھے ان کی بات پر غصہ آیا میں نے کہا صاحب میرا کام سوال کرنا ہے اور جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ پچھلے نصف گھنٹے سے میرے ایک معمولی سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے الجھائے ہوئے ہیں۔ 

تم کافی جلد باز اور بے صبر قسم کے انسان ہو مفکر نے متفکر ہو کر کہا۔ یہ پوری قوم گزشتہ نصف صدی سے اس بھول بھلیاں میں الجھی ہوئی ہے اور مطمئن ہے جبکہ تم صرف آدھے گھنٹے کے اندر بے چین ہو گئے۔ میں نے کہا صاحب اس سے پہلے کہ میں ان بندروں میں شامل ہو جاؤں آپ میرے سوال کا جواب دے دیں ورنہ یہ تین کے بجائے چار ہو جائیں گے۔ 

یہ تم نے پتہ کی بات کہی۔ گاندھی جی یہی چاہتے تھے کہ ساری قوم ان کی مانند ہو جائے۔ 

ان بندروں کی مانند ؟ ہم نے حیرت سے پوچھا 

جی ہاں کیاتم نے ان بندروں کو کوئی معمولی چیز سمجھ رکھا ہے کیا ؟ اگر گاندھی جی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جاتا تو آج کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوتے بلکہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ 

لیکن جناب مجھے اس دور کے سارے مسائل سے کیا غرض میرا تو ایک آسان سا مسئلہ ہے۔ اس بات کا پتہ چلانا کہ آخر گاندھی جی کے چشمے کی چوری کی خبر کو اتنے دنوں تک صیغ? راز میں کیوں رکھا گیا؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب آپ کے یا گاندھی جی کے ان تین بندروں کے پاس موجود ہے ؟  کیوں نہیں ایسا کوئی سوال نہیں ہے جس کا جواب ہم چاروں نہیں جانتے۔ دانشور صاحب نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو ان بندروں کے ساتھ شامل فرما دیا۔ 

آپ لوگ تو سب جانتے ہی لیکن میں نہیں جانتا اس لئے برائے مہربانی مجھے بھی از خود یا ان کے توسط سے بتلا دیجئے۔ 

کاش کہ تم میں چھٹانک بھر عقل ہوتی اور تم اس کا استعمال کر کے خودبخود اپنے اس سوال کا جواب جان لیتے۔ 

یہ سن کر ہمارا پارہ چڑھ گیا اور ہم بولے ٹھیک ہے جناب ہم تو آپ جیسے دانشور پرشاد ہیں نہیں اور نہ ان بندروں جیسے عقلمند اس لئے اب اجازت دیجئے ہم اس سوال کا جواب کسی اور سے معلوم کر نے کی کوشش کر یں گے۔ اب ہمیں آپ اجازت دیں۔ 

یہ سن کر سنکی لال اگروال صاحب آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ یہاں سے سنتشٹ ( مطمئن) ہوئے بغیر چلے جائیں اور ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھریں کے ہم اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں یہ تو ہماری توہین ہے  لیکن حقیقت بھی ہے۔ ہم نے سر جھکا کر کہا

جی نہیں یہ حقیقت نہیں ہے ہم ہر سوال کا جواب جانتے ہیں ہم نے گاندھیائی فلسفہ کی تحقیق میں اپنی عمر کھپا دی ہے۔ 

اچھا اگر آپ واقعی جانتے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے ؟ 

وہ بولے دیکھو یہ پہلا بندر کس حالت میں ہے ؟ 

ہم نے اسے غور سے دیکھا اور کہا یہ تو آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ اسے عینک کی کوئی ضرورت نہیں۔ 

وہ ڈانٹ کر بولے تم سے یہ کس نے پوچھا کہ اسے کس چیز کی ضرورت ہے اور کس کی نہیں جس قدر سوال کیا جائے اسی قدر جواب دو کیا سمجھے ؟ 

ہم نے کہا سرکار غلطی ہو گئی کاش کے ان میں سے کسی بندر نے سر پر بھی ہاتھ رکھا ہوتا؟ 

سر پر ؟سر پر کیا ہے ؟ 

اوپر تو نہیں اندر دماغ ہوتا ہے۔ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اور فاضل جواب نہ دیتے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here