عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی وکیل نے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف مشکل بنا دی گئی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے، جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاشی پالیسز کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، اگر کسی سے کوئی جرم ہوا ہے تو قانون میں شفاف ٹرائل کا طریقہ کارہے،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو پورا کیس مکمل ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے بنیادی حقوق کا تو سوال ہی نہیں تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہوگی تو نیب دیکھے گا، سوال یہ ہے کہ عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، عدالت نے کہا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو،شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پبلک منی کا معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے،واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here