آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ ٹیوٹا کے پاس 111 ارب روپے گاڑیوں کے ایڈوانس کی مد میں موجود ہیں۔ باقی کمپنیوں نے تفصیلات شیئر نہیں کیں۔ اگر یہ پچاس فیصد پر پلانٹ چلا رہے ہیں تو پچاس فیصد تک امپورٹ کی اجازت دی جائے تو بہتری ہوسکتی ہے۔

چئیرمین پی اے سی نور عالم خان کا کہنا تھا جب ہم نے کارساز کمپنیوں کو تفصیلات آڈیٹر جنرل کو دینے کی ہدایت کی تھی تو کیوں نہیں تفصیلات دی گئیں۔

چئیرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ بہاولپور سے ایک خاتون نے مجھے کہا ہے کہ 13 ماہ سے پے منٹ کی ہوئی ہے مگر گاڑی نہیں دی گئی۔ کار مینوفیکچررز اپنے اکاؤنٹ بھر رہے

ہیں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ ہماری گزشتہ میٹنگ کے بعد کار مینوفیکچررز نے قیمتیں مزید بڑھا دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کون سےقانون کے تحت مکمل پے منٹ کے باوجود آپ صارفین سے مزید پیسے مانگتے ہیں۔ مینوفیکچررز بیس فیصد کی بجائے سو فیصد پر بھی بکنگ کرتے رہے۔ ہر ایک کے لیے کیا چیئرمین پی اے سی کال کرے یا کوئی منسٹر کال کرے۔ متعلقہ وزارتوں کو چاہیے اگرمینوفیکچررز ایسا کر رہے ہیں تو گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دی جائے۔

اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں 100 فیصد کیپسٹی پرگاڑیاں نہیں بناتیں کیا یہ جان بوجھ کر عوام کو ذلیل کر رہے ہیں۔رکن کمیٹی برجیس طاہر نے کہا کہ لوگ خوار ہوتے ہیں انہیں گاڑی نہیں ملتی۔ کار کمپنیوں نے کتنے صارفین کو ریفنڈ کیا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا ایڈوانس لیکر لوگوں کو آٹھ آٹھ ماہ بعد گاڑیاں مل رہی ہیں۔

اجلاس میں کمیٹی ارکان  سلیم مانڈوی والا،برجیس طاہر،وجیہہ قمر،سید غلام مصطفیٰ شاہ،نثار احمدچیمہ کے علاوہ سیکرٹری انڈسٹریز امداداللہ بوسال،چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد  اور دیگرنے شرکت کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here