نیب قانون میں ترامیم کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی ،پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے ،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے جو غلط نہیں کہا جا سکتا، بظاہر افسران کو عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ،وکیل نے کہا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں 8 ارب روپے سے زائد ریکوری ہوئی،
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدیداروں کیلئے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے، وکیل نے کہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے،وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا،
واضح رہے کہ عمران خان نے موجودہ حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ،عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ سیکشن 14،15، 21، 23 میں ترامیم بھی آئین کے منافی ہیں۔ نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19A, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here