اتوار کی شب پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران رپورٹر صدف نعیم کی موت نے ملک میں صحافیوں کے تحفظ اور سیاسی اجتماع کے دوران ضروری انتظامات کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
فرائض کی ادائیگی کی خاطر صدف عمران خان کے لانگ مارچ کی کوریج کے غرض سے گذشتہ تین روز سے قافلے کے ساتھ موجود تھیں تاہم حادثے سے پہلے وہ کافی دور سے کنٹینر کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی آ رہی تھیں۔
صدف کی موت کے بعد ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا جس میں انھیں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کنٹینر کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھیں۔
لانگ مارچ کے تیسرے روز سادھوکی کے مقام پر صدف کی جانب سے یوں کنٹینر کے تعاقب کرنے کا مقصد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا انٹرویو لینا یا کوئی خبر نکالنا تھا یا ان پر ادارے کا کوئی دباؤ تھا، مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایسے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ یہاں یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا نظام موجود ہے جس کے تحت صحافیوں کی ٹرینگ ہوتی ہے یا انھیں بتایا جاتا ہے کہ کس

ایونٹ کو کس طرح کوور کرنا ہے۔
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جو صحافیوں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اہم واقعات کی کوریج کرتے ہیں۔
صدف نعیم واحد صحافی نہیں، جو بدقسمتی سے خبر بناتے بناتے خود خبر بن گئیں۔ سوشل میڈیا پرکئی صارفین ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ انھیں کنٹینر کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے تھا بلکہ اپنی جان کی حفاطت ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی۔
جبکہ فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی اس بات کو اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ انھیں ایک نہیں بلکہ کئی قسم کے پریشرز کا سامنا ہوتا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک نجی چینل سے منسلک صحافی قذافی بٹ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پروفیشن کا المیہ یہ ہے کہ صحافی خبر اور نوکری کی فکر پہلے کرتا ہے اور اپنی جان کی فکر بعد میں کرتا ہے۔‘
’اسے یہ پریشانی ہوتی ہے کہ یہ خبر اس کے پاس نہیں جبکہ دوسرے چینل کے رپوٹر کے پاس ہے اور یہ پریشانی اسے اس کے ادارے کا نیوز روم دیتا ہے۔‘
ان کی رائے میں ’صدف کو بھی یہی پریشانی ہوگی کہ کنٹینر پر دوسرے چینل کے چند رپوٹر موجود تھے جبکہ وہ وہاں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔‘
قذافی بٹ کا کہنا تھا کہ جب ہم سے کوئی خبر مِس ہو جاتی ہے تو سب سے پہلے ’نیوز روم سے یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ جب فلاں رپورٹر یہ کام کر سکتا ہے کہ تو آپ کیوں نہیں کر سکتے، مزید کوشش کریں۔ اس کوشش میں ہی ہمارا نقصان ہو جاتا ہے۔ صدف بھی ایسی ہی کوشش کر رہی تھی۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’بریکنگ نیوز کا الگ دباؤ ہوتا ہے۔ اس بات سے بھی خاصا فرق پڑتا ہے کہ آپ کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میڈیا مالکان، نیوز روم کے علاوہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی اس کی ذمہ دار ہیں کیونکہ ہر جماعت نے کسی نہ کسی ٹی وی چینل سے اپنے آپ کو منسلک کیا ہوا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دو چار بڑے چینلز کے رپوٹرز کو ہی اپنے تک رسائی دیتے ہیں۔
’چھوٹے چینل کے صحافیوں کو ادارے میں خود کو منوانے کے لیے بہت جتن کرنا پڑتے ہیں۔‘
ایک اور نجی چینل سے منسلک صحافی محسن بلال کا کہنا تھا کہ یہاں ادارے کی طرف سے دباؤ کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں۔
’میں اور صدف ایک ساتھ ہی کوشش کر رہے تھے کہ کنٹینر پر چڑھ سکیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کئی مرد صحافی چڑھنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن کیونکہ صدف ایک خاتون تھیں اور ان کا چینل بھی چھوٹا تھا اس لیے کسی نے انھیں آسانی سے کنٹینر پر رسائی نہیں دی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کنٹینر پر سوار پی ٹی آئی کی قیادت اور دیگر صحافی دیکھ بھی رہے تھے کہ وہ کافی دور سے بھاگتی آ رہی ہیں لیکن کسی نے صدف کو یہ سہولت نہیں دی۔‘
صحافی ہما صدف سمجھتی ہیں کہ صحافیوں کے لیے فیلڈ میں دوگنی مشکلات ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’صحافیوں پر خبر دینے کا پریشر ادارے کی طرف سے ہوتا ہے لیکن اگر آپ خاتون صحافی ہیں تو آپ پر ادارے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور کئی قسم کے اور بھی پریشر ہوتے ہیں۔ اور ایسا ہی کچھ صدف کے ساتھ بھی تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’بطور خاتون صحافی آپ ضرورت سے زیادہ کسی شخص کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، دوستی نہیں کرسکتے، سیاستدانوں کے ساتھ رات دیر تک خبر کے لیے بیٹھ کر چائے نہیں پی سکتے ہیں۔‘
’اس لیے اگر آپ کوئی سیاسی بیٹ کرتے ہیں تو آپ کو بھاگ دوڑ مردوں سے زیادہ کرنی پڑتی ہے تاکہ آپ اپنا نام بنا سکیں۔‘
’ٹریننگ تو دور کی بات، وقت پر تنخواہ نہیں دی جاتی‘
صحافیوں کو ایسے مواقع پر ٹریننگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں قذافی بٹ کا کہنا تھا کہ ’ٹریننگ تو دور کی بات ہے یہاں زیادہ تر چینل وقت پر تنخواہ نہیں دیتے ہیں۔‘
انھوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ زیادہ تر اداروں میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ صحافی کو یہ کہیں کہ ’تم خبر پر نہیں اپنی حفاظت پر دھیان دینا۔ نہ تو کوئی ٹرینگ دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی حفاظتی سامان مہیا کیا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’صدف کو لانگ مارچ کی کوریج کے لیے صحافی دوستوں سے لفٹ لے کر پہنچنا پڑتا تھا۔ جب آپ کو کیمرا، گاڑی اور دیگر بنیادی چیزیں نہیں ملتیں تو پھر جان کی پرواہ کون کرتا ہے۔‘
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے ایک نجی چینل کے ڈائریکٹر نیوز احمد ولید کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو ٹریننگ دینے کا کوئی رواج نہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں جب بھی آپ کسی خبر پر کام کرتے ہیں تو پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر آپس میں بحث ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا خطرہ تو نہیں۔ خبر کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی دھماکے کی کوریج ہے تو اسے کیسے کرنا ہے یا اگر لوگوں کے ہجوم میں جائیں تو خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔‘
’لیکن ہمارے ہاں زیادہ تر نیوز مینیجرز کی جانب سے فیلڈ میں موجود صحافی سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ جائے وقوعہ کے جتنا قریب جا سکتے ہیں جائیں۔ اس میں رپورٹر اور کیمرا

مین سب ہی شامل ہوتے ہیں۔‘
احمد ولید کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے ماضی میں دیکھا کہ کسی صحافی کو کہا گیا کہ کرین پر چڑھ کر لائیو کردیں تو کبھی کوئی فرمائش ہوتی ہے۔‘
’میرے خیال میں سب سے پہلے بڑے عہدوں پر بیٹھنے والوں کی ٹرینگ ہونی چاہیے، جو فلیڈ میں موجود شخص پر خبر کے لیے پریشر ڈالتے ہیں۔ ادارے کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ صحافی کو تمام تر حفاظتی سامان مہیا کریں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہاں ماسک، لائف جیکٹ اور دیگر حفاظتی سامان تو پاکستان میں ملتا بھی نہیں۔‘
صحافتی تنظیمیں اس حوالے سے کیا کر رہی ہیں؟
اس حوالے سے پی ایف یو جے کے رکن راجہ ریاض نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر صحافتی تنظیمیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں۔ ایک تنظیم میں درجنوں گروپ بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کی جان اور مال کے لیے اٹھنے والی آوازوں میں اثر نہیں ہوتا۔‘
’جب بھی کوئی ایسا دلخراش واقعہ ہوتا ہے تو صرف ایک مذمتی بیان یا پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ کبھی کوئی ایس او پیز صحافیوں کو ان تنظیموں کی جانب سے بتائی گئی ہوں کہ آپ نے اپنے صحافتی کام کرتے ہوئے اپنا خیال کیسے رکھنا ہے۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ کچھ پرائیوٹ این جی ایوز ہیں جو صحافیوں کی ٹریننگ کے لیے ورکشاپ کرواتی ہیں لیکن اس میں تمام صحافی شامل نہیں ہو پاتے یا پھر کئی برسوں بعد کروائی جاتی ہیں۔
راجہ ریاض کا مزيد کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں مختلف سیاسی جماعتوں کی نظر ہو چکی ہیں اور ہر کوئی اپنے مفادات کے لیے کام رہا ہے۔
’جب ہم صحافیوں کے لیے کسی مسئلے پر آواز اٹھاتے ہیں تو اس گروپ کو چھوڑ کر وہ دوسرے گروپ سے مذاکرات کر لیتے ہیں۔ اصل مسئلے کا حل نہیں ہو پاتا۔‘