ایسا لگتا ہے جیسے میں جیمز بانڈ کی فلم کا کوئی سین دیکھ رہا ہوں۔ ماسکو کے قریب ایک تقریب میں روس کے صدر ایک سٹیج پرکھڑے ہیں اور ان سے تباہ کن قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔
سٹیج پر بیٹھے موڈریٹر پوتن کو یاد دلاتے ہیں کہ انھوں نے ایک بار پیشگوئی کی تھی کہ ایٹمی حملے کے بعد روسی جنت میں جائیں گے۔
موڈریٹر پُرامید ہو کر پوچھتا ہے کہ ’ہمیں وہاں جانے کی جلدی نہیں ہے، کیا ایسا ہے؟‘
پھر ایک لمبا، عجیب توقف ہے۔ سات سیکنڈ کی خاموشی۔

موڈریٹر کہتا ہے کہ ’آپ کی خاموشی مجھے پریشان کرتی ہے۔‘ پوتن نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’اس کا یہی مقصد تھا۔‘
اس نوک جھونک پر نہ ہنسنے کے لیے معذرت۔ یہ ہالی ووڈ کی بڑی فلم کا منظر نہیں ہے جس میں بالآخر انجام اچھا ہوتا ہے۔
پچھلے آٹھ مہینوں کے واقعات ایک حقیقی زندگی کا ڈرامہ ہیں جس میں یوکرین کو لاتعداد مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا 60 سال پہلے کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے کہیں زیادہ جوہری تنازع کے قریب ہے۔
تو اس ڈرامے کا یہ سکرپٹ یہاں سے آگے کیسے جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب پر بہت کچھ منحصر ہے: ولادیمیر پوتن یوکرین میں فتح کو یقینی بنانے یا شکست سے بچنے کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں؟
اگر آپ 24 فروری کو اس کی قوم کے نام اس تقریر کو دوبارہ پڑھیں، جو اس نے یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے بعد کی تھی، تو آپ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرے گا وہ کرے گا:
’اور اب کچھ اہم – بہت اہم – الفاظ ان لوگوں کے لیے جو ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں دخل اندازی کرنے کی خوہش رکھتے ہوں۔ جو لوگ ہمارے راستے میں آنے کی کوشش کرتے ہیں یا ہمارے ملک اور ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں انھیں ہوشیار رہنا چاہیے: روس کا ردعمل یہ ہو گا۔ فوری طور پر اور اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں گے جو انھوں نے تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔‘
روس سے باہر کے تجزیہ کاروں نے پوتِن کے ان الفاظ ’وہ نتائج جن کا آپ نے تاریخ میں کبھی تجربہ نہیں کیا ہو گا‘ سے وسیع پیمانے پر ناقابل معافی ایٹمی جنگ کی دھمکیوں سے تعبیر کیا گیا۔ اور یہ شور آنے والے مہینوں کے دوران جاری رہا۔
اپریل میں صدر پوتن نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر کسی نے مداخلت کرنے اور روس کے خلاف سٹریٹجک خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کی تو انتہائی سخت جواب دیا جائے گا۔ ہمارے پاس اس کے لیے درکار تمام ہتھیار موجود ہیں۔‘
ستمبر میں اس نے اپنی بدنام زمانہ لائن شامل کی: ’یہ کوئی خالی دھمکی نہیں ہے۔‘
پچھلے ہفتے، والڈائی ڈسکشن کلب میں (جہاں یہ منظر پیش آیا تھا کہ وہ اس طویل اور پریشان کن وقفے میں ہنستے ہوئے بات کرنے کی ایکٹنگ کر رہے تھے)، صدر پوتن ملے جلے اشارے بھیج رہے تھے۔ اس میں انھوں نے یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے کسی بھی ارادے سے انکار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ (ہم ایٹمی ہتھیار استعمال کریں)۔ کوئی سیاسی یا فوجی ضرورت نہیں ہے۔‘
لیکن ڈسکشن کلب میں سٹیج کے پیچھے ایٹمی حملوں کی افواہوں کے اثرات سے کوئی بچ نہ سکا۔
روس کی خارجہ پالیسی اور دفاعی کونسل کے رکن دمتری سوسلوف نے کہا کہ ’اس بات کا خطرہ ہے کہ روس جوہری ہتھیار استعمال کرے گا۔ یوکرین کے خلاف نہیں بلکہ مغرب کے خلاف۔
’اگر ایک بھی امریکی میزائل روس کے اندر کسی روسی فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتا ہے، تو ہم قیامت خیز ایٹمی تباہی کی طرف ایک تاریخی چھلانگ لگائیں گے۔‘
روس کے سرکاری جوہری نظریے کے مطابق، روس جلد از جلد امریکہ اور نیٹو کے تمام اتحادیوں کے خلاف ایک سٹریٹجک ایٹمی حملہ کرے گا۔
’جیسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی میزائل ہماری سرزمین پر داغے گئے ہیں، چاہے وہ کیسے ہی مسلح ہوں۔ تب سارا سیارہ ختم ہو جائے گا۔‘
کیا یہ ایک انتباہی بیان ہے؟ یقیناً یہ ایسا ہی ہے۔
کیا یہ حقیقت پسندانہ منظر نامہ ہے؟ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں۔
صدر پوتِن کی تقریر میں لمبے لمبے وقفوں کو اگر ایک طرف کر بھی دیا جائے (جو یقینی طور پر ڈرامائی تاثر پیدا کرنے کے لیے تھے) اور حالیہ روسی بیان بازی کو بھی ایک طرف چھوڑ دیا جائے، تو بھی میرے خیال میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کریملن ابھی یوکرین کی جنگ میں ایٹمی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
خاص طور پر ان پانچ وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔
1- امریکی وسط مدتی انتخابات
امریکہ میں کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے قریب آنے کے بعد کریملن کو معلوم ہو جائے گا کہ ریپبلکن پارٹی کے پاس کانگریس پر کنٹرول حاصل کرنے کا ایک موقع ہے۔

اس ماہ کے شروع میں امریکی کانگریس میں حزبِ اختلاف رہنما کیون میکارتھی نے خبردار کیا تھا کہ اگر ریپبلکن دوبارہ اکثریت حاصل کرتے ہیں تو وہ یوکرین کے لیے ’بلینک چیک‘ نہیں لکھیں گے۔
یہ بیان پوتن کے کانوں کے لیے پُرمسرت موسیقی ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ریپبلکن کی جیت سے یوکرین کے لیے امریکی امداد پر خاصا اثر پڑے گا، لیکن کریملن کیئو کے لیے امریکی فوجی امداد میں کمی کے کسی بھی موقع کا خیر مقدم کرے گا۔
2- یورپ میں موسم سرما
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ولادیمیر پوتن یہ حساب لگا رہے ہیں کہ روس کی جانب سے یورپ کو گیس کی سپلائی سختی سے منقطع ہونے کے بعد سرد موسم یورپ کی توانائی اور مہنگائی کے بحران کو مزید بگاڑ دے گا جس سے مغربی حکومتوں کو کریملن کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جائے گا، یعنی روسی توانائی کے حصول کے بدلے میں وہ یوکرین کی حمایت میں کمی کریں۔

اب تک یورپ موسم سرما کے لیے ماسکو کی توقع سے کہیں بہتر طور پر تیار نظر آتا ہے۔
اکتوبر معمول سے کم سرد تھا اور مائع قدرتی گیس کی سپلائی میں اضافے کا مطلب ہے کہ ذخائر بہتر ہو گئے ہیں اور یورپ میں گیس کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں۔
لیکن اگر درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو پھر توانائی کے حصول کا دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔ خاص طور پر یوکرین میں جہاں روسی فوج اس کے بنیادی ڈھانچے پر حملے کر رہی ہے۔
3- عوامی سطح پر فوجی بھرتیوں کا اعلان
حالیہ دنوں میں ہم نے ولادیمیر پوتن کو اپنے ’خصوصی فوجی آپریشن‘ کی ضروریات کے لیے پوری روسی معیشت اور صنعت کو متحرک کرنے کی طرف قدم اٹھاتے دیکھا ہے۔
بہت سے طریقوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ملک ایک طویل المدتی جنگ کی تیاری کی لپیٹ میں ہے۔ ایک نشانی، شاید یہ کہ کریملن اب یوکرین میں ایک طویل جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
4- باہمی یقینی تباہی
سرد جنگ کا یہ اصول آج بھی درست ہے۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اگر کسی ایک حریف کی طرف سے ایٹم بم استعمال کیے گئے تو دوسری طرف اس کا جواب دیا جائے گا اور اس طرح دونوں جانب وسیع تباہی پھیلے گی اور سب لوگ مر جائیں گے۔
ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ پوتن اس حقیقت سے آگاہ ہے۔
یہ سب اس بنیاد پر مبنی ہے کہ یہ ماننا منطقی ہو گا کہ یوکرین کی جنگ میں کوئی ایٹمی اسلحے کا استعمال نہیں ہو گا۔
لیکن یقیناً ایک مسئلہ ہے۔ 24 فروری کو یہاں منطق غائب ہو گئی، اور ضروری نہیں کہ جنگیں حالات کی منطقی پیش رفت کے اصولوں کی پیروی کریں۔
اگر کیوبا کے میزائلوں کے بحران نے دنیا کو ایک چیز سکھائی ہے تو وہ یہ ہے کہ غلط اندازے لگانے اور غلط بات چیت کے نتیجے میں کرہ ارض کو اچانک تباہی کے دہانے پر کیسے لایا جا سکتا ہے۔
یہ بات مجھے آخری وجہ تک پہنچاتا ہے کہ کیوں پوتِن ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کریں۔۔۔

پوتِن کے ’خصوصی آپریشن‘ کی پیشرفت روس کی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوئی۔ جس چیز میں زیادہ سے زیادہ چند دن یا چند ہفتے لگنے تھے اس میں پہلے ہی کئی مہینے لگ چکے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ کریملن نے یوکرین کی مزاحمت، کیئو کے لیے مغرب کی حمایت اور روس کو درپیش بین الاقوامی پابندیوں کے سونامی کو مکمل طور پر کم اہم سمجھا ہے۔
شروع میں یقین دہانی کے باوجود کہ صرف ’پیشہ ور سپاہی‘ لڑیں گے، صدر پوتن نے ’جزوی طور پر عوامی سطح پر فوجی بھرتیوں‘ کا اعلان کیا۔
سب سے پہلے تو روسی فوجیں حالیہ ہفتوں میں یوکرین کی جوابی کارروائی کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں سے پسپا ہو رہی ہیں۔
لیکن پوتن شاذ و نادر ہی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ فی الحال وہ اس جنگ کو جاری رکھنے اور کسی ایسی چیز کے ساتھ ابھرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں جسے وہ فتح کہہ سکتا ہے۔