20.9 C
New York
Wednesday, October 4, 2023

آخری ٹھکانہ سمجھی جانے والی ’سخت ترین‘ جیل اندر سے کیسی 

انجلیکا کو پہلے ہی سے تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ اُن کے لاپتہ شوہر ڈارون کہاں ہوں گے۔ تاہم حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو، جو سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی، نے اُن کے شبہات کی تصدیق کر دی۔

25 منٹ تک ویڈیو کے ہر فریم کو بغور دیکھتے ہوئے انجلیکا نے بالآخر اپنے شوہر کو پہچان لیا۔ ویڈیو میں وہ اپنے ایک ساتھی قیدی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

انجلیکا نے ویڈیو کو روک کر دوبارہ چلایا اور اس فوٹیج کو بار بار دیکھا۔

اس ویڈیو میں ان کے شوہر کا سر منڈا ہوا تھا جبکہ انھوں نے اپنے جسم پر سفید شارٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ حلیے میں اتنی تبدیلی کے باوجود انجلیکا کو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ ان کے شوہر ڈارون ہی تھے جنھیں انھوں نے 11 ماہ قبل اُن کی گرفتاری کے بعد سے نہیں دیکھا تھا۔

یہ ویڈیو انجلیکا کے لیے پہلا ثبوت تھا کہ اُن کے شوہر کو ایل سیلواڈور کی بدنام زمانہ اور وسیع و عریض جیل ’سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم‘ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

جیل

اس جیل کا افتتاح رواں برس جنوری میں ملک کے صدر نائیب بوکیلے نے دارالحکومت سان سیلواڈور سے 74 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ٹیکولوکا نامی علاقے میں کیا تھا۔

یہ جیل ایل سیلواڈور کی ’خطرناک گینگز کے خلاف جنگ‘ کی علامت بن گئی ہے۔ ایل سیلواڈور کی سکیورٹی سے متعلقہ وزارت کا کہنا ہے کہ مارچ 2022 میں افتتاح کے بعد سے اس جیل میں کم از کم 68 ہزار افراد کو مقید رکھا جا چکا ہے۔

سیلواڈور میں ایسے ہزاروں شہری ہیں جن کے رشتہ دار گذشتہ کئی کئی ماہ سے زیر حراست ہیں مگر انھیں (رشتہ داروں کو) اُن کے متعلق کوئی خبر نہیں۔ یہ لوگ انجلیکا کی طرح ویڈیوز یا تصویروں میں اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرتے ہیں۔ جن کے رشتہ دار کم سکیورٹی والی جیلوں میں بند ہیں وہ جیل کی دیواروں میں بنے چھوٹے سوراخوں سے جھانک کر اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جیل
،تصویر کا کیپشنیہ جیل 57 ایکٹر رقبے پر بنائی گئی ہے جہاں قیدیوں پر 24 گھنٹے بلاتعطل نگاہ رکھی جاتی ہے

صدر بوکیلے کی گینگز کے خلاف مہم کی وجہ سے اس وقت ملک میں ہنگامی حالات ہیں۔ تاہم دوسری جانب گینگ کی کارروائیوں سے تنگ عوام میں یہ مہم بہت مقبول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایل سیلواڈور دنیا کے سب سے زیادہ پُرتشدد ممالک میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ جنوری میں سی آئی ڈی گیلپ نے 1200 شہریوں کی رائے شماری کی، جس میں 92 فیصد نے صدر کی گینگز کے خلاف جنگ کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

لوگ صدر بوکیلے کو اس وجہ سے بھی پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد قتل کی وارداتوں میں زبردست کمی آئی ہے۔ ملک کے بہت سے شہری اس تبدیلی کو مانتے ہیں۔

خاص طور پر ان علاقوں میں جو پہلے جرائم پیشہ گروہوں کے زیر کنٹرول تھے۔ یہ گروہ شہریوں کو خوف میں رکھتے تھے۔ یہ عام لوگوں کو دھمکی دیتے تھے ’دیکھو، سُنو مگر منھ بند رکھو۔‘

لیکن اب عام شہری ایسے علاقوں سے بغیر کسی تشدد کے خوف کے جا سکتے ہیں۔

جیل
،تصویر کا کیپشناس جیل کے قید خانوں میں نہ تو کوئی کھڑکی ہے اور نہ ہی پنکھا

ایل سیلواڈور حکومت کا کہنا ہے کہ اس جیل میں 40 ہزار قیدیوں کو رکھا جا سکتا ہے، جن میں خاص طور پر دو حریف گروہ مارا سلواٹروچا (MS-13) اور بیریو 18 کے صف اول کے گینگسٹرز شامل ہیں۔

ان دونوں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایل سیلواڈور میں کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور خونریزی مچی ہوئی تھی۔

متعدد درخواستوں کے باوجود بی بی سی کو اس جیل تک کی رسائی نہیں دی گئی۔

تاہم حکومت کی طرف سے جاری کردہ معلومات، میڈیا کی طرف سے شیئر کی گئی ویڈیوز اور تصاویر، جیل کے افتتاح سے قبل اس کا دورہ کرنے والے افراد، ایل سیلواڈور کے حکام کے ساتھ انٹرویوز اور جیل کی تعمیر میں شامل ایک انجینیئر کی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی گئی معلومات کی بنیاد پر بی بی سی نے جیل کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس جیل میں مجموعی طور پر 256 قید خانے (سیل) ہیں، جن میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

جیل
،تصویر کا کیپشنیہاں موجود قیدیوں کو دھات کے تخت پر سلایا جاتا ہے جس پر کوئی کپڑا یا گدا نہیں ہوتا

قیدیوں کے پاس سونے کے لیے بستر کے نام پر فقط دھات کی ایک پلیٹ ہوتی ہے اور اس پر بچھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا، یعنی دھات سے بنا ایک سیدھا تخت ہوتا ہے جس پر وہ سوتے ہیں۔

جیل کے سیل ہیرے کی شکل کی جالیوں سے بنائے گئے ہیں جن سے سکیورٹی اہلکار 24 گھنٹے قیدیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ جال ٹھوس دھات سے بنائے گئے ہیں تاکہ کوئی قیدی ان سے جھول نہ سکے۔

قیدیوں کو کپڑے دھونے کے لیے ہر سیل میں دو واش بیسن کی سہولت فراہم کی گئی ہے جب کہ ہر سیل میں بغیر کسی پردے کے دو بیت الخلا بھی ہیں۔

ایل سیلواڈور میں سارا سال موسم گرم مرطوب اور حبس والا رہتا ہے مگر اس کے باوجود ان قید خانوں میں کھڑکیاں، پنکھے یا ایئر کنڈیشنر نہیں ہیں۔

حکام کے مطابق قیدی صرف اپنے کیسز کی آن لائن سماعت یا قید تنہائی کے دوران قید خانے سے باہر آ سکتے ہیں۔

اس قید خانے میں ہر قیدی کے لیے کتنی جگہ ہے اس بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ بی بی سی منڈو کی طرف سے دیکھے گئے جیل کے تعمیراتی منصوبے کے مطابق ہر قید خانے کی پیمائش 7.4 میٹر بائی 12.3 میٹر یا 91.02 مربع میٹر ہے۔

جیل
،تصویر کا کیپشنان قیدیوں کو کسی صورت جیل سے باہر نہیں لایا جاتا، یہاں تک کہ ان کی کیسوں کی سماعت بھی آن لائن ہوتی ہے

ایک سیل میں قیدیوں کی کل تعداد کے مطابق ہر قیدی کے لیے 0.58 مربع میٹر جگہ دستیاب ہو سکتی ہے۔ ریڈ کراس بین الاقوامی معیار کے مطابق مشترکہ قید خانے میں ہر قیدی کے لیے کم از کم 3.4 مربع میٹر جگہ تجویز کرتا ہے۔

ایل سیلواڈور کے حکام نے کہا ہے کہ وہ توقع نہیں کرتے کہ اس جیل کے قیدیوں کو کبھی رہائی دی جائے گی۔

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس جیل میں کتنے قیدی ہیں۔ حکام نے دو بار یہاں قیدیوں کی منتقلی کا کُھلے عام اعلان کیا ہے اور ہر بار دو ہزار قیدیوں کو یہاں لایا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جیل میں تفریح کی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاندان کے فرد کو جیل کے اندر جانے کی اجازت ہے۔ یہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس جیل میں قید ہونے کا کوئی میعار واضح نہیں گیا گیا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہاں کسی نئے قیدی کو رکھا گیا ہے یا صرف دیگر جیلوں کے قیدیوں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔

جیل کے اندر قیدیوں کو کس طرح کھانا دیا جاتا ہے یا ان کی دیکھ بھال کی جاتی اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ باورچی خانے، ڈائننگ روم، دکان یا صحت کی سہولیات کی کوئی معلومات یا تصاویر شیئر نہیں کی گئیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ جیل میں جدید ترین حفاظتی انتظامات ہیں- داخل ہونے کے لیے سکیننگ سسٹم، جدید ترین ہتھیاروں کے علاوہ نگرانی کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔

تشدد کی روک تھام سے متعلق اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے سابق رکن میگوئل سارے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ جیل کنکریٹ اور فولاد کا ایک گڑھا ہے جو سزائے موت کے بغیر لوگوں کو مارنے کی کوشش ہے۔‘

زکٹکولکا شہر کے سیینئر جج اور صدر بوکیلے کی ہنگامی اقدامات پر کھل کر تنقید کرنے والے چند مجسٹریٹوں میں سے ایک اینٹونیو دوران بھی اس نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’قانون کی حکمرانی کے تحت کام کرنے والے ملک میں کسی کو آزادی سے محروم کرنا سزا ہوتی ہے۔ مجرم کو اس کی آزادی سے محروم کر کے سزا دی جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہاں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قیدی کو جیل کے اندر مزید سزا دینے کے لیے آزادی سے محروم کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ ایک جرم بھی ہے۔ یہ تشدد ہے۔‘

جیل

ایل سیلواڈور حکومت اس جیل کو جرائم پیشہ افراد اور گینگسٹرز کے لیے آخری حربے کے طور پر دیکھتی ہے۔

ایل سیلواڈور کے وزیر برائے قانون اور پبلک سیفٹی گسٹاوو ویلاٹورو نے بی بی سی کے نامہ نگار ول گرانٹ کو مئی میں بتایا تھا کہ ’ہم سیلواڈور کے لوگوں کے ساتھ یہ عہد کرتے ہیں کہ (اس جیل) کے قیدی کبھی بھی اپنی عام زندگیوں میں واپس نہیں جائیں گے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے جا رہے ہیں کہ ہم ان کے خلاف ضروری مقدمات بنائیں تاکہ وہ کبھی معاشرے میں واپس نہ جا سکیں۔‘

انھوں نے کہا ’ہمارے لیے (یہ جیل) انصاف کی اب تک کی سب سے بڑی یادگار کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

تین ماہ قبل یعنی مئی 2023 میں صدر نائیب بوکیلے کی جانب سے دیا گیا ایک بیان اس نقطہ نظر کی تائید کرتا محسوس ہوتا ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’انسانی حقوق پر کام کرنے والی تمام این جی اوز سے کہہ دوں کہ ہم ان خونخوار قاتلوں اور ان کے ساتھیوں کا صفایا کرنے جا رہے ہیں، ہم انھیں جیل میں ڈالیں گے اور وہ کبھی باہر نہیں آئیں گے۔‘

جیل

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس جیل کے کتنے قیدیوں کو مقدمات میں سزا ہوئی ہے۔

بی بی سی نے ایل سیلواڈور کی حکومت سے پوچھا کہ جیل میں کن قیدیوں کو رکھا گیا ہے اور انھیں وہاں رکھنے کی کیا بنیاد ہے۔ اس میں 40 ہزار قیدیوں کو کیسے رکھا جائے گا اور قیدیوں کے اہلخانہ کو ان کی منتقلی کے بارے میں کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ تاہم ہمیں ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ملا۔

چند ہفتے قبل بی بی سی کی ٹیم جیل کے قریب جتنا جا سکتی تھی اتنا قریب پہنچی۔

اس علاقے میں تعینات ایک پولیس افسر نے ہمیں منشیات کے بدنام کارٹیل کے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ’ایل چاپو بھی یہاں سے فرار نہیں ہو سکتا۔‘

ایل چاپو اس وقت امریکہ میں قید ہیں لیکن اس سے پہلے وہ کئی مرتبہ جیلوں سے فرار ہو چکے ہیں۔

یہ جیل 57 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے جس میں آٹھ بلاک اور ہر بلاک میں 32 سیل (قید خانے) ہیں۔

جیل

جیل کے گرد دو باڑیں ہیں جن پر نصب تاروں میں سے ہائی وولٹیج بجلی گزرتی ہے جبکہ کنکریٹ کی دو دیواریں بھی ہیں۔ جیل کے گرد 19 واچ ٹاورز ہیں جن پر محافظ تعینات ہیں۔

پولیس اہلکار نے اعتراف کیا کہ گذشتہ چند ماہ میں ان کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔

‘پہلے میرا سارا وقت گینگ ارکان کو ان کے گھروں سے نکالنے میں گزرتا تھا جس میں ظاہر ہے خطرات تھے۔ اب میرا دن چیک پوائنٹس پر گزرتا ہے اور کبھی کبھار کافی پینے کا وقت بھی مل جاتا ہے۔‘

جن علاقوں میں پہلے گینگز کے کارندوں کا کنٹرول ہوا کرتا تھا، ان کے رہائشی صدر بکیلے کی پالیسی کے خاص طور پر حامی ہیں۔

لا کامپانیرا کی رہائشی ڈینس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک صدر نے ایسا نہیں کیا تھا یہ جگہ بالکل محفوظ نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ بہت عمدہ فیصلہ تھا اور اسی لیے میں اُن کو ملک کا اب تک کا سب سے بہترین صدر سمجھتی ہوں۔‘

جیل

تاہم 23 سالہ ماریا کا خیال مختلف ہے۔ ان کی والدہ کے پارٹنر نے چھ ماہ تک جیل کی تعمیر میں بطور مزدور کام کیا لیکن پھر ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

ماریا اب گھر سے باہر زیادہ نہیں نکلتیں۔ ان کی دوست جیسیکا، جن کی ایک تین سالہ بیٹی ہے، کو بھی پولیس گرفتار کر چکی ہے۔

ماریا کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں نوجوان ہونا اب ایک جرم بن گیا ہے۔

بی بی سی نے ایسے متعدد قیدیوں کے اہلخانہ سے گفتگو کی جن کی کہانی ملتی جلتی ہے۔

ان افراد کا کہنا تھا کہ ان کے عزیزوں کو گھروں سے بنا وارنٹ گرفتار کر لیا گیا اور پھر جیلوں میں لے جایا گیا۔

ان کے مطابق ان افراد کے مقدمے دیگر قیدیوں کے ساتھ آن لائن چلائے گئے جن میں جج نے پری ٹرائل یا مقدمے سے قبل گرفتاری کو قانونی قرار دیا تاکہ پراسیکیوٹر آفس کو تفتیش کا وقت مل سکے۔ اس عمل میں مہینے حتیٰ کہ سال لگ سکتے ہیں۔

جیل

مئی میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی این جی او ’کرسٹوسل‘ نے بتایا تھا کہ ان اقدامات کے پہلے سال میں درجنوں قیدی تشدد یا پھر طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

حکومت نے اس رپورٹ پر ردعمل نہیں دیا لیکن ملک کے انسانی حقوق کے کمشنر آندریز گزمان کابالیرو نے ایک تقریب کے دوران اسے ’تشویشناک‘ قرار دیا تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ جب جیل کی آبادی دو یا تین مختلف گینگ کے اراکین پر مشتمل ہو تو وہ آپس میں جھگڑا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اموات ہوتی ہیں اور ان کی وجوہات کو انفرادی طور پر دیکھنا ہو گا۔

تاہم کرسٹوسل کا کہنا ہے کہ جیل کے بارے میں ان کو کافی تشویش ہے کیوںکہ اس کی مانیٹرنگ کافی مشکل ہے۔

تنظیم کے قانونی مشیر زاریا نواس، جو ملک کے پولیس انسپکٹر جنرل رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس جیل میں حالات کافی غیر انسانی ہو سکتے ہیں کیونکہ کسی کو یہاں تک رسائی حاصل نہیں۔

‘کوئی وکیل یہاں تک کے میڈیا بھی جیل کے حالات دیکھنے نہیں جا سکتا۔’

جہاں تک انجیلیکا کی بات ہے، جنھوں نے فوٹیج میں اپنے شوہر کو دیکھا تھا، انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اب کسی بھی طریقے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

‘میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔ میرے بچوں اور میرے شوہر کو ضرورت ہے کہ میں ایسا کروں۔’

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Latest Articles