انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں سعودی عرب کے سرحدی محافظوں پر یمن کے ساتھ سرحد پر تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینکڑوں افراد، جن میں اکثریت اُن ایتھوپیائی باشندوں کی ہے جو جنگ زدہ یمن کی سرحد عبور کر کے سعودی عرب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
تارکین وطن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے اعضا گولیاں لگنے سے شدید متاثر ہوئے جبکہ انھوں نے راستوں پر بہت سے تارکین وطن کی گولیوں سے چھلنی لاشیں دیکھی ہیں۔
سعودی عرب اس سے قبل اس نوعیت کے منظم قتل کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے ’دے فائرڈ آن اس لائیک رین‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ تارکین وطن کی جانب سے ملنے والی شہادتوں پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ یمن کی سرحد پر سعودی پولیس اور فوجیوں نے ان پر گولیاں برسائیں اور کئی بار دھماکہ خیز ہتھیاروں سے انھیں

نشانہ بنایا۔
بی بی سی نے کئی تارکین وطن سے الگ الگ رابطہ کیا جس میں انھوں نے رات کے اوقات میں سرحد عبور کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔ ان کے مطابق بڑے گروپس کی شکل میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران یہ تارکین وطن فائرنگ کی زد میں آئے۔ ان گروپس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
یہ افراد تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب میں کام کی تلاش میں سرکرداں تھے۔
21 سالہ مصطفیٰ محمد نے بی بی سی کو بتایا: ’گولیاں چلتی رہیں، اور مسلسل چلتی رہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے گذشتہ سال جولائی میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تو ان کے گروپ میں موجود 45 تارکین وطن فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔
مصطفیٰ کو بھی اس رات گولی لگی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ’پہلے مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ مجھے گولی لگ چکی ہے، لیکن جب میں نے اٹھ کر چلنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ میری ایک ٹانگ میرے جسم کا ساتھ نہیں دے رہی۔‘
یہ یمنی اور ایتھوپیا کے انسانی سمگلروں کے ہاتھوں پُرخطر، بھوک اور تشدد سے بھرپور تین ماہ کے سفر کا ایک سفاکانہ اور افراتفری بھرا خاتمہ تھا۔
اس واقعے کے گھنٹوں بعد فلمائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مصطفیٰ کا بایاں پاؤں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہے جس کے باعث ان کی ٹانگ کو بعدازاں گھٹنے کے نیچے سے کاٹنا پڑا تھا اور اب وہ ایتھوپیا میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور بیساکھیوں اور خراب کوالٹی کی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں۔
مصطفیٰ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں سعودی عرب گیا تھا کیونکہ میں اپنے خاندان کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا تھا۔ لیکن جس کی مجھے امید تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ اب میرے والدین میرے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔‘
’قتل گاہ‘
کچھ زندہ بچ جانے والے گہرے صدمے سے دوچار ہیں۔
یمنی دارالحکومت میں رہنے والی زہرہ بمشکل اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ 18 سال کی ہیں لیکن وہ اپنی عمر سے کم عمر نظر آتی ہیں۔ ہم ان کے تحفظ کے لیے ان کا اصلی نام استعمال نہیں کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے ایک ایسے سفر پر تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ڈالر تاوان اور رشوت کی مد میں خرچ ہوئے جس کا اختتام پر سرحد پر ہونے والی گولیوں کی برسات پر ہوا۔
ان کے ایک ہاتھ پر لگنے والی گولی کے نتیجے میں ان کی تمام انگلیاں ختم ہو گئیں۔ جب بی بی سی کی جانب سے اُن کے زخموں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ دوسری

طرف دیکھنے لگيں اور شدت جذبات کے باعث جواب نہیں دے سکیں۔
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق ہر سال 200,000 سے زیادہ لوگ ہارن آف افریقہ سے یمن تک سمندری راستے سے گزرتے ہوئے خطرناک سفر کی کوشش کرتے ہیں اور پھر سعودی عرب جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو راستے میں قید و بند اور مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سمندر کے راستے سفر کرنا کافی خطرناک ہے۔ گذشتہ ہفتے جبوتی کے ساحل پر بحری جہاز کے الٹ جانے سے 24 سے زائد تارکین وطن لاپتہ ہو گئے تھے۔
اور یمن میں تارکین وطن کے اہم راستے ایسے لوگوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں جو راستے میں ہی مر گئے ہیں۔
دو سال قبل دارالحکومت صنعا میں ایک حراستی مرکز میں آگ لگنے سے درجنوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ یمن کا درالحکومت ملک کے حوثی باغیوں کے زیر انتظام ہے اور وہ شمالی یمن کے بیشتر حصے پر قابض ہیں۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ کی تازہ ترین رپورٹ میں بیان کردہ زیادتیاں پیمانے اور نوعیت میں مختلف ہیں۔
رپورٹ کی مرکزی مصنفہ نادیہ ہارڈمین نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے جو دستاویز تیار کی ہے وہ بنیادی طور پر اجتماعی قتل کی دستاویز ہیں۔‘