برطانوی فوج کے ساتھ لڑنے والے 600 انڈین فوجیوں نے بغاوت کی

0
37

سنہ 1945 میں برطانوی فوج کے ساتھ لڑنے والے تقریباً 600 انڈین فوجیوں نے بغاوت کی اور انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک کی حمایت کر دی۔

بی بی سی نے برطانوی دور کے پنجاب میں وزیر آباد سے آنے والے ان فوجیوں میں سے ایک کے خاندان کا سراغ لگایا اور ان سے ان کے تجربات پر بات کی۔

سنیوگ سریواستو ایک انڈین ہیں جو انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں گذشتہ 25 سالوں سے مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سورابایا کی جنگ انڈیا اور انڈونیشیا دونوں کے

لیے جذباتی اہمیت کی حامل ہے۔

سورابایا میں ان کے گھر سے بی بی سی انڈونیشیا کو دیے گئے ایک ورچوئل انٹرویو میں سنیوگ سریواستو نے کہا ’دونوں پر طویل عرصے تک غیر ملکی حملہ آوروں نے ظلم کیا اور جب انگریزوں کے ماتحت انڈین فوج کے سپاہی یہاں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی لوگوں سے لڑنے پر مجبور ہیں۔‘

جب انھوں نے جنگ میں مارے گئے فوجیوں کی یاد میں قومی یادگار ‘ٹوگو پہلوان’ کا دورہ کیا تو انھوں نے ان انڈین فوجیوں کے نام تلاش کرنے کی کوشش کی جنھوں نے انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے ساتھ اپنی جانیں قربان کیں۔

وہ کہتے ہیں ’اگر آپ یادگار کا دورہ کرتے ہیں، تو آپ کو کچھ اور چیزیں معلوم ہوں گی۔ یہاں کے انڈین نژاد لوگ اور جنھوں نے انڈونیشیا کے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ سب اس تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں۔‘

تاہم وہ محسوس کرتے ہیں کہ انڈین نژاد زیادہ تر لوگ انڈیا اور انڈونیشیا کے اس مشترکہ ورثے سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وہ امید کرتے ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کہانی کی تہہ تک پہنچیں گے۔

سنیوگ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ یہ دلوں کو قریب لائے گا اور انسانیت کے احساس میں اضافہ کرے گا۔ انڈین تارکین وطن میں دونوں ممالک کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرے گا اور دونوں ثقافتوں کے میل ملاپ، ایک دوسرے کا احترام اور امن کا احساس اور مل کر کام کرنے کا باعث بنے گا۔

سورابایا کی جنگ اہم تھی کیونکہ یہ ایشیا میں برطانوی سلطنت کی آخری بڑی جنگ تھی۔

اس وقت اتحادی افواج ستمبر 1945 میں سورابایا میں تعینات تھیں۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کے فوجی بھی یہاں موجود تھے۔

لیکن انڈونیشیا کے لوگوں کو برطانیہ کے ساتھ ڈچ فوجیوں کو دیکھ کر غصہ آیا اور ان کا خیال تھا کہ ہالینڈ صرف ان کے ملک پر دوبارہ قبضہ کرنے میں برطانیہ کی مدد کر رہا ہے۔

انڈونیشیا کی جدید تاریخ کے ماہر اور آکسفورڈ مورخ پیٹر کیری کے مطابق ’ایک طرح سے 1946 میں، برطانیہ نے ڈچ کے لیے دوبارہ آنے کا دروازہ کھول دیا۔ تاہم ستمبر 1945 سے مارچ 1946 تک برطانیہ ایک سرویئر تھا۔

اس دوران انڈیا پر برطانیہ کی حکومت تھی اور اس نے ابھی تک آزادی حاصل نہیں کی تھی۔

لہٰذا سورابایا میں قیام امن کے لیے انگریزوں نے وہاں پنجاب، مدراس، مہاراشٹر اور دیگر علاقوں سے بھرتی ہونے والے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا تھا۔

محقق وقار مصطفی کے مطابق اے جی خان نے 12 مئی 2012 کے ایک مضمون ’ہندوستانی مسلمان فوجی: انڈونیشیا کی آزادی میں بہادرانہ کردار‘ میں لکھا ہے کہ ’مسلم فوجیوں کے تین بریگیڈ ڈچ کے زیر قبضہ جاوا جزیرے پر اترے۔ بریگیڈ 1 جکارتہ، بریگیڈ 38 سیمارنگ اور بریگیڈ 49 سورابایا میں اترا۔‘

’بریگیڈ 1 کے ڈویژن 32 کی کمانڈ عبدالمتین اور غلام علی نے کی۔ ان کا پہلا کام تمام جاپانیوں کو غیر مسلح کرنا اور قیدی بنانا اور مقامی باشندوں سے ہتھیار ضبط کرنا تھا۔‘

’اپنی کارروائیوں کے دوران میں انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں جاپانیوں سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ انڈونیشیا کے باشندوں کو دبانے کے لیے تعینات کیا گیا تھا جو ڈچ غلامی سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔‘

600مسلمان فوجی برطانوی افواج سے منحرف ہو کر اپنے ہتھیاروں اور گولا بارود کے ساتھ آزادی پسندوں کے انڈونیشیا کے مزاحمتی گروپ میں شامل ہو گئے۔

پروفیسر پیٹر کیری کے مطابق ’پانچویں انڈین ڈویژن میجر جنرل رابرٹ مانسرگ کی قیادت میں سورابایا میں اتری۔ انڈین ڈویژن میں 6000 فوجی تھے جنھیں فضائیہ اور بحریہ کی مدد فراہم کی گئی تھی۔

لیکن برطانوی فوج کو اندازہ نہیں تھا کہ تقریباً 600 انڈین فوجی برطانوی کمانڈ کے خلاف بغاوت کر کے انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر ڈچ-برطانوی فوج کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔

’پانچ ویںڈویژن کو مانسرگ کی طرف سے آزادی کے لیے لڑنے والے انڈونیشین جنگجوؤں کے خلاف محاذ کھولنے کے احکامات موصول ہوئے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’انڈین فوجیوں نے کہا – جب ہم خود برطانیہ سے اپنی آزادی چاہتے ہیں تو پھر ہم برطانیہ کے لیے کیوں فائر کریں

قوم پرستی کے احساس کے علاوہ انڈین فوجیوں اور انڈونیشیا کے آزادی پسندوں کے درمیان اچانک اتحاد کے احساس کی ایک وجہ ان کا مشترکہ عقیدہ تھا۔

جنگ کے دوران انڈونیشیا کے جنگجوؤں اور شہریوں کی جانب سے ‘اللہ اکبر’ کے نعروں نے انھیں یہ محسوس کرایا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑے ہیں۔

ظہیر خان کی کتاب ‘ان دی رول آف پاکستان ڈونگ دی انڈونیشیا اسٹرگل’ میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈ ون کے 32ویں ڈویژن کے کمانڈر غلام علی اور دیگر مسلمان فوجیوں نے انڈونیشین شہریوں میں چاول، چینی، نمک اور دیگر سامان تقسیم کیا۔

چونکہ انڈونیشیا کے لوگوں کے پاس کافی خوراک نہیں تھی اور وہ سنگین طبی مسائل کا سامنا کر رہے تھے اس لیے اس مدد کو بہت سراہا گیا۔

دراصل، غلام رسول اور سات دیگر فوجیوں نے ایک خفیہ میٹنگ کی اور جمہوریہ انڈونیشیا کی فوج کے سلیوانگی ڈویژن کے کمانڈر سے رابطہ کیا۔

اس کا کوڈ ‘السلام علیکم’ تھا۔ پروفیسر کیری کا کہنا ہے کہ اس بھائی چارے کا تعلق مذہب سے زیادہ قومیت کے احساس سے تھا۔

وہ کہتے ہیں: ’صرف مذہبی عنصر نہیں تھا۔ بلکہ، قومیت کا عنصر کہیں زیادہ تھا، جس نے نوآبادیاتی مخالف جذبات کو گہرا کیا۔‘

اس جنگ میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ اس جنگ میں 27 ہزار لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

جنگ کے اختتام پر 600 میں سے صرف 75 انڈین فوجی بچے رہ گئے تھے۔

پروفیسر کیری کے مطابق ’یہ ایک بہت ہی شدید لڑائی تھی جس میں 800 برطانوی فوجی مارے گئے تھے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here