چین نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔
جنوبی افریقہ میں چین کے سفیر چن جیاؤڈونگ نے پریٹوریا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان براہِ راست ملاقات اور بات چیت ہو گی۔
انڈین اخبار انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ دونوں رہنما دو روز تک رہنماؤں کے کانفرنس روم اور لاؤنج میں رہیں گے۔ ایسے میں ان دونوں کے درمیان ملاقات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا تاہم نئی دہلی میں چینی سفارت خانے سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں ایسی کسی ممکنہ ملاقات کا علم نہیں۔
نریندر مودی برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا اور میزبان ملک جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
تاہم پوری دنیا کی نظریں چین کے صدر پر ہوں گی اور اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کیا شی جن پنگ اور مودی کے درمیان ملاقات ہونے جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا دونوں ملکوں کے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر بات ہو گی؟
برکس (برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ) کے رکن ممالک کے رہنماؤں کی کانفرنس 22 سے 24 اگست تک جوہانسبرگ میں ہونے جا رہی ہے۔
اگر شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہوتی ہے تو مئی 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع شروع ہونے کے بعد یہ ان کی پہلی طے شدہ ملاقات ہو گی۔
شی جن پنگ 21 سے 24 اگست تک جنوبی افریقہ میں ہوں گے جبکہ مودی آج دوپہر جوہانسبرگ پہنچیں گے۔
برکس ممالک کے رہنماؤں کی اہم کانفرنس 23 اگست کو ہو گی۔ 24 اگست کو برکس کے رکن ممالک کے رہنما افریقی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔
شی جن پنگ اور مودی کی 20ویں ملاقات
اگر شی جن پنگ اور مودی کی برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر آمنے سامنے ملاقات ہوتی ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد یہ دونوں کے درمیان اس طرح کی 20ویں ملاقات ہو گی۔
سنہ 2014 سے 2019 کے درمیان دونوں 18 بار ملے ہیں لیکن 2020 میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب وادی گالوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے بعد شی جن پنگ اور مودی کے درمیان کوئی طے شدہ ملاقات نہیں ہوئی۔
دونوں رہنماؤں نے گذشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں ایک عشائیہ کے دوران 19ویں ملاقات کی تھی تاہم انڈیا کی جانب سے اس بارے میں معلومات سات ماہ بعد دی گئیں۔
اس ملاقات کے بارے میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے پر بات ہوئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان آمنے سامنے ملاقات ہوتی ہے تو کیا اس سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے گا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ایسٹ ایشین سٹڈیز کے اسوسی ایٹ پروفیسر اروند یلری سے بات کی۔ یلری فی الحال ایک تعلیمی نمائندے کے طور پر برکس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ میں ہیں۔
اس سوال پر اروند یلری نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر یقینی طور پر سرحدی مسئلہ پر بات کرنا چاہیں گے لیکن چین اس بات کو پسند نہیں کرے گا۔‘
’دونوں ممالک کے درمیان کور کمانڈر سطح کے مذاکرات کے 19ویں دور کے باوجود صورتحال میں نرمی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ چینی فوج کے بڑے افسر آتے ہیں، بات کرتے ہیں لیکن تناؤ کم کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔‘
یلری کا کہنا ہے کہ ’جب تک شی جن پنگ یا چینی وزیر خارجہ کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت نہیں ہوتی، سرحدی کشیدگی میں کمی کی توقع فضول ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’فی الحال اس کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ چین برکس کو توسیع دینے میں مصروف ہے اور برکس میں نئے اراکین کو مدعو کیا جا رہا ہے۔‘
سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر اور ارجنٹینا جیسے ممالک برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
چین پاکستان اور خلیجی ممالک کو اتحاد میں کیوں شامل کرنا چاہتا ہے؟
ماہرین کے مطابق اس حوالے سے پاکستان بھی رکن بننا چاہتا ہے اور چین اسے برکس کا رکن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ برکس سربراہی اجلاس میں پاکستان کے غیرسرکاری نمائندوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے۔
یلری کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو ڈر ہے کہ چین برکس پر قبضہ کر سکتا ہے چونکہ یوکرین جنگ کے بعد روس مکمل طور پر چین کے زیر اثر ہے۔ اسی لیے برکس میں روس کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور چین نے خلیجی ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بعد دنیا نے دیکھا کہ عرب ممالک میں چین کا اثر و رسوخ کیسے بڑھ رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ، اس نے برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔
’اگر چین اپنے بااثر ممالک کو برکس کا رکن بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو انڈیا اس اہم عالمی تنظیم میں تنہا ہو جائے گا۔‘
فنانشل ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین برکس کو دنیا کی سات بڑی ترقی یافتہ معیشتوں کے گروپ جی سیون کا حریف بنانا چاہتا ہے۔
اروند ییلری کا کہنا ہے کہ ’چین برکس کو نیٹو مخالف بلاک کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ’یہ انڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ انڈیا کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔‘
بین الاقوامی امور کے ماہر اور اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق نے اس بارے میں بی بی سی اردو کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اس وقت امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ مل کر چلنے کی کوشش میں ہے۔
ان کے مطابق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست میں ’زیرو سم‘ نظریے یعنی امریکہ بمقابلہ سویت یونین یا امریکہ بمقابلہ چین نے تقویت پکڑی تھی لیکن

چین نے ترقی کے بعد اس نظریے کو اپنے ون ون ماڈل سے تبدیل کر دیا۔
یعنی چین نے اپنے ترقی کے ثمرات خطے کے دورے ممالک تک پہنچانے کی کوشش کی اور اس طرح اقتصادی تعاون میں امریکہ کے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا دوسری طرف امریکہ آج بھی سرد جنگ کے ماڈل پر کام کرتا ہے جس میں جیو پولیٹکس ہے، تنازعات کا خطرہ رہا، ممالک کو ایک حد تک محدود کرنا ہے اور جنگوں کے ذریعے تسلط قائم کرنا شامل ہے۔
جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں چینی ماڈل کامیاب ہو رہا ہے جس میں کسی بھی ملک کی سیاسی نظام، وہاں انسانی حقوق کی صورتحال سے بالا تر ہو کر ایسے اتحاد قائم کیے جا رہے ہیں جس میں معاشی تعاون پر بات ہوتی ہے۔
’اسی وجہ سے چین کا بلیٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ دنیا کے 154 ممالک تک پھیل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک انڈیا کو برکس میں تنہائی کا خطرہ لاحق ہے تو ایسا نہیں۔ ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق آج کی دنیا میں جیو پولیکٹس کی جگہ جیو اکنامکس نے لے لی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آج دنیا بھر میں اقتصادی معاملات نے سکیورٹی کے خطرے سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے ممالک معاشی تعاون تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔
اسی وجہ سے روس یوکرین کے معاملے پر بھی انڈیا جانبدار رہنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی وجہ عالمی معیشت کی حقیقت ہے۔ ایک جانب وہ روس سے تیل اور اسلحہ خرید رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ تجارت اور سکیورٹی پر بات کر رہا ہے۔
ان کے مطابق انڈیا کو برکس میں سعودی عرب، پاکستان سمیت دیگر ممالک کے شامل ہونے سے کوئی زیادہ خوف نہیں کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق پاکستان کا برکس میں شامل ہونا خوش آئند ہو گا کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان کو آزادانہ تجارت اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ پاکستان اور انڈیا اپنے مابین متعدد تنازعات کے حل کی جانب بھی بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کی دنیا میں ممالک کو سیاسی تناظر کے بجائے اقتصادی تعاون پر دیکھا جائے گا اور اس دوڑ میں امریکہ اور یورپ چین سے ہار رہے ہیں۔

سنہ 2014 کے بعد انڈین اور چین کے تعلقات کیسے رہے؟
نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد 2015 میں نریندر مودی نے چین کا دورہ کیا۔
سنہ 2017 میں سلی گوڑی کوریڈور کے قریب ڈوکلام میں سرحدی تنازعے کو لے کر انڈیا اور چین کے فوجی دو ماہ تک آمنے سامنے کھڑے رہے۔
تاہم اسی سال وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے چین کے شہر ژیامن میں نویں برکس سربراہی اجلاس میں ایک نہایت ہی رسمی مختصر ملاقات کی۔
اس کے بعد ہی چین نے امرناتھ یاتریوں کے لیے ناتھو لا پاس کھولنے کا اشارہ دیا تھا۔ ڈوکلام تنازعے کے بعد چین نے اسے بند کر دیا تھا۔
سال 2018 میں شی جن پنگ اور نریندر مودی نے ووہان میں منعقدہ انڈیا چین غیر رسمی سربراہی اجلاس میں بات چیت کی تھی۔
ایک سال بعد 2019 میں وزیراعظم اور چین کے صدر کے درمیان چنئی میں دوسری غیر رسمی سربراہی ملاقات ہوئی۔
سنہ 2020 میں انڈیا اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ منائی گئی۔
تاہم اسی سال انڈیا اور چین کے درمیان سنگین صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ یکم مئی 2020 کو مشرقی لداخ میں پینگونگ تسو جھیل کے شمالی کنارے پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
اس میں دونوں طرف کے درجنوں فوجی زخمی ہوئے۔ اس کے بعد 15 جون کو ایک بار پھر وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
16 جون کو اس جھڑپ کے حوالے سے انڈین فوج کا بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ ’جھڑپ کے مقام پر ڈیوٹی پر موجود 17 فوجی شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔۔۔‘ اس کے بعد اس تصادم میں ہلاک والے فوجیوں کی تعداد 20 ہو گئی۔
لداخ کے گلوان میں انڈین اور چینی فوج کے درمیان پرتشدد تصادم کے بارے میں ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین نے اس میں اپنے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا۔
خبر رساں ایجنسیوں پی ٹی آئی اور اے این آئی کے مطابق ایک آسٹریلوی اخبار ’دی کلاکسن‘ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چین کی جانب سے چار فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی تھی۔